حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح
حسرت موہانی کی غزل “روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام” اردو شاعری کا ایک درخشندہ نمونہ ہے، جو حسنِ یار اور اس کے نورانی جلووں کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ غزل محبت، عقیدت اور وارفتگی کے جذبات سے معمور ہے، جس میں شاعر اپنے محبوب کے جمال کو روشنی اور زندگی کا منبع قرار دیتا ہے۔ حسرت موہانی نے نہایت سادہ اور دلکش انداز میں محبوب کی خوبصورتی کا بیان کیا ہے، جہاں ہر شعر میں عشق کی وارفتگی جھلکتی ہے۔ ان کے الفاظ میں ایک خاص موسیقیت اور تاثیر ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ یہ غزل صرف عاشقانہ مضامین تک محدود نہیں بلکہ اس میں صوفیانہ رنگ بھی نمایاں ہے، جہاں محبوب کا حسن حقیقت میں حسنِ الٰہی کی جھلک دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غزل آج بھی اردو شاعری کے چاہنے والوں میں مقبول ہے۔ اس آرٹیکل میں جماعت دہم کے نصاب میں شامل حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے ویب سائیٹ علمو۔ اردو نوٹس کے لیے اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں۔
شعر 1۔ روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
مفہوم۔ یار کے حُسن سے ساری محفل منور اور روشن ہو گئی، جیسے پھول کی خوب صورتی اور حدت سے سارا باغ روشن ہو جاتا ہے۔
تشریح۔ حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر میں شاعر محبوب کے حُسن اور خوب صورتی کی تعریف کر رہے ہیں۔ حسرت موہانی کی یہ غزل حسن و عشق کے خوبصورت مضامین سے بھرپور ہے، اور اس مخصوص شعر میں شاعر نے محبوب کے حسن اور اس کی تابناکی کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ محبوب کا حسن اتنا درخشاں اور مسحور کن ہے کہ اس کی موجودگی سے پوری محفل جگمگا رہی ہے۔ یہاں “جمالِ یار” کو روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے، جس سے مراد محبوب کا دلکش چہرہ اور اس کا پرکشش وجود ہے۔ جیسے چراغ کی روشنی سے ایک کمرہ منور ہو جاتا ہے، اسی طرح محبوب کے حسن نے محفل کو منور کر دیا ہے۔ اس بیان سے شاعر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ محبوب کی موجودگی محفل میں ایک نئی جان ڈال دیتی ہے اور اس کا حسن ہر طرف روشنی بکھیر دیتا ہے۔
غزل روشن جمال یار سے ہے کے اس شعر میں شاعر حسرت موہانی پھولوں کی خوبصورتی اور ان کی حدت کو بیان کرتے ہوئے اسے پورے باغ کی روشنی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ “آتشِ گل” ایک خوبصورت استعارہ ہے جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پھول، جو اپنی رنگت اور تازگی کے باعث دلکش ہوتے ہیں، گویا ایک آتش فشاں کی مانند ہیں جو باغ میں ایک الگ قسم کی حرارت اور رونق پیدا کر رہے ہیں۔ شاعر محبوب کے حسن کا موازنہ پھولوں کی حدت اور تپش سے کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح کھلے ہوئے پھولوں سے باغ کی رونق بڑھ جاتی ہے، اسی طرح محبوب کے حسن سے محفل کی چمک دمک میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس شعر میں شاعر نے انتہائی خوبصورتی سے تشبیہات اور استعاروں کا استعمال کیا ہے، جو کلاسیکی شاعری کا ایک اہم وصف ہے۔ شاعر نے حسن کے اثر کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حسن صرف ظاہری خوبصورتی تک محدود نہیں، بلکہ اس کا اثر ماحول اور گرد و پیش پر بھی پڑتا ہے۔ محبوب کی موجودگی نہ صرف دل کو مسرت بخشتی ہے بلکہ ساری فضا کو بھی ایک دلکش روشنی سے بھر دیتی ہے۔
یہ شعر حسن کی طاقت اور محبوب کی خوبصورتی کے اثرات کو بیان کرنے کا بہترین نمونہ ہے، جہاں شاعر نے اپنی محفل اور چمن کو محبوب کی روشنی اور حسن کی گرمی سے مزین کر دیا ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 2۔ حیرت غرور حُسن سے شوخی سے اضطراب دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام
مفہوم۔ میرے دل نے محبوب کے حُسن سے غرور اور شوخی سے اضطراب(بے چین رہنے کا انداز) سیکھ لیا ہے۔
تشریح۔ حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر میں شاعر محبوب کی اداؤں اور انداز کو اپنے لیے استاد، رہنما اور کل سرمایہ مانتے نظر آتے ہیں۔ یہ شعر محبوب کے حسن و جمال کے اثرات کو نہایت دلنشین انداز میں پیش کرتا ہے۔ شاعر کے دل نے محبوب کی خوبیوں سے غرور اور شوخی سے اضطراب کا جذبہ اپنالیا ہے۔ یہ شعر عشق کے جذبات اور عاشق کی کیفیت کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کے حسن و جمال کی چمک سے ساری محفل روشن ہے۔ محبوب کا حسن اس قدر دلکش اور تابناک ہے کہ اس کی موجودگی سے ہر طرف روشنی اور رعنائی چھا جاتی ہے۔ محبوب کے حسن و جمال کی روشنی سے پوری انجمن (محفل) جگمگا رہی ہے۔ شاعر کہنا چاہتے ہیں کہ محبوب کی موجودگی یا اس کے حسن کی تابانی سے سارا ماحول روشن اور دلکش ہو گیا ہے۔ محبوب کی خوبصورتی اتنی شاندار ہے کہ اس کی جھلک سے سب کچھ حسین نظر آ رہا ہے۔
شاعر اپنے دل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے دل نے محبوب کے حسن کو دیکھ کر غرور (فخر) کرنا سیکھ لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ محبوب کے حسن کو دیکھ کر دل میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور دل کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھی حسن کا ایک حصہ ہے یا حسن میں شامل ہے۔ محبوب کی شوخی اور چنچل طبیعت نے شاعر کے دل میں اضطراب اور بےچینی پیدا کر دی ہے۔ محبوب کی دلربائی اور نخرے دیکھ کر شاعر کا دل بھی بےقرار ہو گیا ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 3۔ اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
مفہوم۔ ماشااللہ، میرے محبوب کا حُسن ایسا ہے کہ سادے لباس میں بھی رنگ خود آ جاتے ہیں۔
تشریح۔ یہ شعر حسرت موہانی کی اعلیٰ شاعری کا نمونہ ہے، جس میں وہ اپنے محبوب کے حسن کی حیرت انگیز خوبصورتی کو بیان کر رہے ہیں۔ حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر حیرت اور عقیدت کے ساتھ کہتا ہے کہ محبوب کے جسم کی خوبصورتی اور رعنائی ایسی نرالی ہے کہ اس کی تعریف کرنا بھی مشکل ہے۔ “اللہ ری” ایک تعجبیہ انداز ہے، جو حیرت اور عقیدت کے ملے جلے جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ محبوب کا جسم اتنا خوبصورت، نکھرا ہوا اور تابناک ہے کہ اس کی حسن و جمال کی تعریف کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔
دوسرے مصرعے میں شاعر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبوب کے حسن کی چمک دمک ایسی ہے کہ اس کا سادہ لباس بھی خود بخود رنگین نظر آنے لگتا ہے۔ یعنی محبوب کے جسم کی چمک اور دلکشی لباس کو بھی حسین بنا دیتی ہے، گویا کہ اس کی جلد کی لطافت اور نورانیت لباس پر اثر انداز ہو کر اسے بھی جاذبِ نظر بنا دیتی ہے۔
یہ شعر محبوب کے حسن کی قدرتی کشش اور رعنائی کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔ شاعر اس بات پر حیران اور متاثر ہے کہ محبوب کے جسم کی خوبصورتی اور نکھار ایسا ہے کہ وہ کسی مصنوعی زینت یا لباس کے رنگوں کا محتاج نہیں، بلکہ اس کا حسن خود بخود ہر چیز کو رنگین اور دلکش بنا دیتا ہے (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 4۔ دل خون ہو چکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک باقی ہوں میں مجھے بھی کر اے تیغ زن تمام
مفہوم۔ میرے دل کا قتل ہو گیا ہے، اور میرا جگر چاک ہو گیا ہے۔ صرف میرا وجود ہی باقی ہے ، تو اے تیغ زن اسے بھی ختم کر دے۔
تشریح۔ یہ شعر حسرت موہانی کی شاعری میں عشق، درد، یاسیت اور خود سپردگی کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ شاعر اپنے شدید جذباتی اور روحانی کرب کو بیان کر رہا ہے، جہاں وہ اپنی بربادی اور مکمل فنا ہونے کی خواہش کو آشکار کر رہا ہے۔ حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر کہتے ہیں کہ میرا دل خون میں ڈوب چکا ہے، یعنی میں اتنی تکلیف اور صدمات جھیل چکا ہوں کہ میرے دل کا سکون اور راحت ختم ہو چکی ہے۔ “دل خون ہونا” عام طور پر شدید دکھ اور رنج کی علامت ہوتا ہے، جو یہاں عشق میں ناکامی یا محبوب کی بے رخی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مزید، شاعر کہتے ہیں کہ جگر خاک ہو چکا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اب میرا صبر و حوصلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ جگر عموماً صبر، حوصلے اور عشق کی شدت کی علامت ہوتا ہے، اور یہاں شاعر اپنی برداشت کے خاتمے کو ظاہر کر رہا ہے۔
پہلے مصرع میں شاعر اپنے دل و جگر کی مکمل تباہی بیان کرتا ہے، اور دوسرے مصرع میں وہ تیغ زن تلوار چلانے والے، یعنی محبوب یا قاتل کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب میرا سب کچھ برباد ہو چکا ہے، تو پھر میرا وجود بھی کیوں باقی ہے؟ یہاں تیغ زن علامتی طور پر محبوب، تقدیر یا کسی ظالم قوت کو ظاہر کر سکتا ہے، جو پہلے ہی شاعر کو ناقابلِ برداشت درد دے چکا ہے۔ اب وہ مزید اذیت برداشت کرنے کے بجائے اپنی مکمل فنا کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مجھے بھی مکمل ختم کر دے تاکہ میرا درد ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
یہ شعر عشق میں دیوانگی، محبوب کی بے وفائی، اور شدید جذباتی تکلیف کا اظہار ہے۔ شاعر اپنے دل اور جگر کی تباہی کے بعد اپنی بقیہ زندگی بھی ختم کر دینے کی درخواست کر رہا ہے، کیونکہ اس کے لیے مزید جینا بے معنی ہو چکا ہے۔ اس میں عشق کی انتہا، خودسپردگی، اور فنا کی آرزو نمایاں ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 5۔ دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام
مفہوم۔ یار کی آنکھوں کی جادو نگاہیاں تو دیکھو، ان کے دیکھنے کی اداسے پوری محفل ہوش کھو بیٹھی ہے۔
تشریح۔ یہ شعر محبوب کی آنکھوں کی بے پناہ کشش اور ان کے سحر انگیز اثر کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ محبوب کی نظریں محض دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ جادو کی مانند ہیں، جو کسی پر بھی پڑ جائیں تو وہ ہوش و خرد کھو بیٹھتا ہے۔ یہ شعر عشق، وارفتگی اور محبوب کی قدرتی کشش کی عکاسی کرتا ہے، جو عاشق کو دیوانہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ شعر حسرت موہانی کی ایک انتہائی خوبصورت اور خیالی کیفیت سے بھرپور شاعری کا نمونہ ہے، جس میں محبوب کی آنکھوں کی تاثیر اور اس کے جادوئی اثر کو بیان کیا گیا ہے۔
حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر کےپہلے مصرعے میں شاعر یہاں مخاطب کو دعوت دے رہا ہے کہ آؤ اور محبوب کی آنکھوں کی جادوئی نظر کا مشاہدہ کرو۔ یہاں “چشم یار” یعنی محبوب کی آنکھوں کو جادو نگاہیاں کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان آنکھوں میں ایسی کشش، چمک اور اثر ہے جو دیکھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔ شاعر محبوب کی نگاہوں کو عام آنکھوں سے ہٹ کر ایک جادوئی طاقت کی مانند بیان کر رہا ہے، جو دیکھنے والے کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔
اس مصرعے میں شاعر محبوب کی نظر کی شدت کو مزید واضح کرتا ہے کہ محبوب کی ایک ہی نگاہ نے پوری محفل کو بے ہوش کر دیا۔ یعنی اس کی نظریں اتنی پراثر اور دل لبھانے والی ہیں کہ جیسے ہی وہ کسی پر پڑتی ہیں، وہ مدہوش ہو جاتا ہے۔ یہاں “انجمن” سے مراد پوری محفل ہے، جس میں موجود ہر فرد محبوب کی نظر کی تاب نہ لا کر محو حیرت، مدہوش یا مگن ہو جاتا ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 6۔ ہے ناز حسن سے جو فروزاں جبین یار لبریز آب نور ہے چاہ ذقن تمام
مفہوم۔ محبوب کا ماتھا حُسن کے ناز سے، جبکہ چاہ ذقن، نور سے روشن ہے۔
تشریح۔ یہ شعر حسرت موہانی کے تخیلاتی حسن پرستی اور محبوب کے حسن کی نازک تفصیل کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ شاعر محبوب کے چہرے کی خوبصورتی کو نہایت دلکش انداز میں بیان کر رہا ہے۔
حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر کا پہلا مصرع محبوب کی پیشانی (جبین) کی چمک اور اس کے حسن کے ناز و انداز کو بیان کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی پیشانی حسن کے ناز سے فروزاں (چمک رہی) ہے۔ یہاں “ناز حسن” سے مراد محبوب کے حسن کا وہ فطری غرور اور خوداعتمادی ہے، جو اس کے چہرے پر اور بھی رعنائی اور تابناکی پیدا کر رہا ہے۔ شاعر دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ محبوب کے چہرے پر ایک خاص نور اور وقار ہے، جو اس کے حسن کے ناز سے مزید بڑھ گیا ہے۔ دوسرے مصرع میں شاعر محبوب کے چہرے کے ایک اور دلکش پہلو کو بیان کرتا ہے۔ “چاہِ ذقن” سے مراد ٹھوڑی کا وہ گڑھا ہے، جو بعض چہروں پر خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ گڑھا نور سے لبریز ہے، یعنی محبوب کے چہرے کی روشنی اور حسن کی تازگی اس قدر زیادہ ہے کہ لگتا ہے جیسے اس کے ٹھوڑی کے گڑھے میں نور کا پانی بھرا ہوا ہے۔
یہ شعر محبوب کے چہرے کی چمک، حسن کے ناز، اور اس کے قدرتی حسن کی منفرد تفصیلات کو انتہائی شاعرانہ انداز میں بیان کرتا ہے۔ شاعر نے پیشانی کی روشنی اور ٹھوڑی کے گڑھے کی دلکشی کو نورانی اور جادوئی انداز میں پیش کیا ہے، جس سے محبوب کی حسن پرستی اور شاعرانہ تخیل کی معراج نظر آتی ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 6۔ نشو و نمائے سبزہ و گل سے بہار میں شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام
مفہوم۔ بہار میں سبزے اور پھولوں کی نشو ونما کا سامان ہے، اس وجہ سے چمن سر سبز و شاداب ہو گیا ہے۔
تشریح۔ یہ شعر حسرت موہانی کے قدرتی حسن اور موسم بہار کی شادابی پر مبنی شاعری کی خوبصورت مثال ہے۔ شاعر نے یہاں بہار، سرسبزی اور تازگی کو ایک دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔
حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر کا پہلا مصرع بہار کے موسم میں سبزہ اور پھولوں کی نشوونما (نشو و نما: بڑھوتری اور ترقی) کو بیان کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب بہار آتی ہے تو سبزہ اور پھولوں کی افزائش اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ بہار کی آمد کے ساتھ ہی درخت، پودے، گھاس اور پھول نئی زندگی پاتے ہیں اور فطرت کے ہر گوشے میں حسن اور تازگی کی بہار آ جاتی ہے۔
دوسرے مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ ان سبزہ و گل کی نشو و نما کے باعث باغ کی ہر چیز شادابی اور تازگی سے بھر چکی ہے۔ یعنی بہار کے آتے ہی چمن میں ہر طرف ہریالی، رنگ برنگے پھول اور خوشبو پھیل چکی ہے، جس سے پورے باغ کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ شعر بہار کی رعنائی، سبزہ و گل کی افزائش، اور قدرت کی تازگی کو بیان کرتا ہے۔ شاعر نے چمن کی خوبصورتی اور بہار کی لطافت کو ایک خوبصورت تصویری انداز میں پیش کیا ہے، جہاں ہر چیز تازگی، ہریالی اور خوشبو سے معمور ہو چکی ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 7۔ اس نازنیں نے جب سے کیا ہے وہاں قیام گلزار بن گئی ہے زمین دکن تمام
مفہوم۔ جب سے نازوں والے نے دکن میں قیام کیا ہے، تب سے دکن کی زمین گلزار (باغ) بن گئی ہے۔
تشریح۔ یہ شعر حسرت موہانی کی ایک خوبصورت تخیلاتی شاعری کی مثال ہے، جس میں وہ محبوب کی موجودگی کو دکن کی سرزمین کے لیے باعثِ شادابی اور حسن و جمال کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر محبوب کو “نازنیں” (ناز و ادا والا، حسین و دلکش) کہہ کر مخاطب کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ جب سے اس حسین ہستی نے دکن کی سرزمین پر قیام کیا ہے، وہاں ایک خوشگوار تبدیلی آ گئی ہے۔ یہاں “نازنیں” کا اشارہ یا تو کسی خاص محبوب شخصیت کی طرف ہے یا پھر عمومی طور پر کسی حسین و جمیل اور دلکش ہستی کی جانب، جو جہاں بھی جاتی ہے، وہاں کی فضا کو خوشگوار بنا دیتی ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر محبوب کی موجودگی کے اثرات کو بیان کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ محبوب کے قیام کے بعد دکن کی سرزمین کسی باغ (گلزار) میں تبدیل ہو گئی ہے۔ یعنی محبوب کی موجودگی نے ہر جگہ شادابی، تازگی، خوشبو اور خوبصورتی پیدا کر دی ہے۔ یہ ایک مبالغہ آمیز مگر انتہائی خوبصورت شاعرانہ انداز ہے، جس میں شاعر یہ بتا رہا ہے کہ محبوب کی ذات اتنی حسین اور دلکش ہے کہ جہاں بھی وہ قیام کرے، وہ جگہ جنت نظیر بن جاتی ہے۔
یہ شعر محبوب کی موجودگی کے جادوئی اثرات کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب سے محبوب نے دکن میں قدم رکھا ہے، اس سرزمین کی فضا، ماحول اور خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ شعر حسن پرستی، نازک خیالی اور محبوب کی تاثیر کو منفرد انداز میں پیش کرتا ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 8۔ اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں پھیلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام
مفہوم۔ ظلم کرنے والے ایسے ہی سختیاں اور ظلم کرتے جائیں، جتنا یہ ظلم کریں گے اتنی ہی شورش و انقلاب اور حب الوطنی کااحساس زیادہ پیدا ہو گا۔
تشریح۔ یہ شعر حسرت موہانی کے انقلابی خیالات اور آزادیِ وطن کے جذبےکو نمایاں کرتا ہے۔ شاعر اس شعر میں ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت اور حب الوطنی کے بڑھتے ہوئے جذبات کی بات کر رہا ہے۔
حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر حسرت موہانی کہتے ہیں کہ اگر ظالم لوگ (اہلِ جَور) ظلم و ستم اور سختیاں بڑھاتے رہیں تو یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں، بلکہ یہ اچھا ہی ہے۔ یہاں شاعر حکمرانوں، جابروں اور سامراجی قوتوں کے مظالم کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو ظلم کے ذریعے قوم کو دبانا چاہتے ہیں۔ مگر شاعر کا کہنا ہے کہ یہ سختیاں ایک نئے انقلاب کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ دوسرے مصرع میں شاعر ظلم کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے کہ جتنا زیادہ ظلم ہوگا، اتنی ہی حب الوطنی کی آگ بڑھے گی، اور آزادی کے لیے بغاوت اور شورش میں اضافہ ہوگا۔ یعنی ظلم کا دباؤ قومی جذبے اور آزادی کی تحریک کو مزید تقویت دے گا، اور یوں پورے ملک میں بیداری اور انقلاب کی لہر دوڑ جائے گی۔
یہ شعر ظلم کے خلاف مزاحمت، آزادی کی جدوجہد، اور حب الوطنی کے جذبے کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کا پیغام یہ ہے کہ ظالم جتنا بھی ظلم کرے، وہ قوم کو دبا نہیں سکتا، بلکہ اس کے نتیجے میں بیداری، انقلاب اور آزادی کا جذبہ مزید مضبوط ہوگا۔ یہ شعر تحریک آزادی کے پس منظر میں مقاومت اور حوصلے کی بہترین علامت ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 9۔ سمجھے ہیں اہل شرق کو شاید قریب مرگ مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام
مفہوم۔ مغرب کے لوگ مشرق کے لوگوں کے مردہ سمجھ رہے ہیں، اور مشرقیوں پر گدھوں کی طرح حملہ کر رہے ہیں۔
تشریح۔ یہ شعر حسرت موہانی کی قومی، سیاسی اور تہذیبی شعور کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں شاعر نے مشرق (خصوصاً برصغیر یا مسلم دنیا) کی کمزور حالت اور مغربی طاقتوں کے استحصالی رویے کو ایک علامتی انداز میں پیش کیا ہے۔
حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر کے پہلے مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ مغربی طاقتوں نے مشرق (یعنی ایشیائی اور مسلم ممالک) کو شاید قریب المرگ (مرنے کے قریب) سمجھ لیا ہے۔ یہاں شاعر مشرقی اقوام کی زبوں حالی، غلامی، سیاسی انحطاط اور مغربی تسلط کے اثرات کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ مشرق کی طاقت، شان و شوکت اور وقار کمزور ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے مغربی اقوام اسے ایک بیمار اور دم توڑتی تہذیب سمجھنے لگے ہیں۔
دوسرے مصرع میں شاعر مغربی طاقتوں کو “زاغ و زغن” یعنی کوے اور گِدھ قرار دے رہا ہے۔ زاغ و زغن عام طور پر مُردہ جانوروں پر جمع ہونے والے پرندے ہیں، جو لاشوں کو نوچتے ہیں۔ شاعر مغربی استعماری طاقتوں (نوآبادیاتی قوتوں) کو ان حریص اور مردار خور پرندوں سے تشبیہ دے رہا ہے، جو کمزور اور مرتی ہوئی قوموں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔
یہاں مغرب کی سیاست، سامراجی عزائم اور استحصال کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جیسے مغربی طاقتیں مشرق کو ایک مردہ یا کمزور جسم سمجھ کر اس پر حملہ آور ہو چکی ہیں، اور سب اپنے مفادات کی خاطر اس کی دولت و وسائل کو لوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ شعر مغربی استعمار، مشرقی اقوام کی کمزوری اور استحصالی سیاست کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مغربی طاقتوں نے مشرق کو کمزور سمجھ کر اس پر قبضہ جما لیا ہے اور وہ اسے نوچنے اور برباد کرنے کے درپے ہیں۔ یہ شعر حریت، قومی غیرت اور تہذیبی شعور کو اجاگر کرتا ہے اور مشرقی اقوام کو بیداری اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
شعر 10۔ شیرینئ نسیم ہے سوز و گداز میرؔ حسرتؔ ترے سخن پہ ہے لطف سخن تمام
مفہوم۔ اے حسرتؔ، تیری شاعری پر ایسا کرم ہے کہ اس میں نسیم ؔدہلوی کے کلام کی مٹھاس ، اور میرؔ تقی میرؔ کی شاعری کا سوز و گداز موجود ہے۔
تشریح۔ حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کے اس شعر میں شاعر نے اپنے کلام کو دو عظیم شعرانسیم دہلوی اور میر تقی میرؔکی شاعری کے حسین امتزاج سے تشبیہ دی ہے۔ پہلے مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ اس کے کلام میں نسیم دہلوی کی شاعری جیسی مٹھاس (شیرینی) اور میر تقی میر کی شاعری جیسا درد اور سوز و گداز موجود ہے۔نسیم دہلوی کی شاعری نرمی، مٹھاس اور لطافت کے لیے مشہور تھی، ان کے اشعار میں ایک خاص نغمگی اور روانی تھی۔ میر تقی میر کی شاعری میں گہرا درد، سوز، گداز، اور جذباتی شدت تھی، جس کی وجہ سے ان کی شاعری قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔یہاں حسرت موہانی کا کلام ان دونوں خصوصیات کا مجموعہ قرار دیا گیا ہے—یعنی یہ نہ صرف لطیف، شیریں اور نغمگی سے بھرپور ہے، بلکہ اس میں درد، سوز، اور گہرائی بھی موجود ہے۔ دوسرے مصرع میں شاعر خود اعتمادی کے ساتھ کہتا ہے کہ حسرت! تیرے کلام میں سخن (شاعری) کی تمام خوبصورتیاں موجود ہیں۔ یعنی ان کی شاعری میں چاشنی بھی ہے، تاثیر بھی، نرمی بھی ہے، گہرائی بھی، اور حسن و دلکشی بھی۔ یہ شعر حسرت موہانی کے کلام کی عظمت، ان کے شاعرانہ لب و لہجے، اور ان کی شاعری کی لطافت و سوز کو بیان کرتا ہے۔ شاعر اپنے کلام کو نسیم دہلوی کی مٹھاس اور میر تقی میر کے درد و گداز کا حسین امتزاج قرار دیتا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ حسرت موہانی کی شاعری میں شائستگی، لطافت، درد، تاثیر، اور خوبصورتی سب کچھ موجود ہے۔ (اس آرٹیکل میں حسرت موہانی کی غزل روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔