” رقیب سے” نظم کا مرکزی خیال

by Aamir
0 comments

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” رقیب سے” کے مرکزی خیال کے بارے میں پڑھیں گے ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

 نظم کا مرکزی خیال:

یہ نظم فیض احمد فیض کے مخصوص رومانوی اور انقلابی طرزِ اظہار کا امتزاج ہے۔ نظم کا ابتدائی حصہ محبوب کی یادوں، عشق کی سرشاری، اور اس کی حسین یاد گاروں سے وابستگی کا بیان ہے، لیکن آہستہ آہستہ شاعر کی محبت ایک وسیع تر کائناتی اور سماجی شعور میں ڈھل جاتی ہے۔

نظم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ عشق صرف ایک ذاتی تجربہ نہیں بلکہ ایک ایسا راستہ ہے جو انسان کو دنیا کے دکھوں، ناانصافیوں، اور محروم طبقے کے درد سے روشناس کراتا ہے۔ شاعر محبت کے ذریعے عاجزی، ہمدردی، اور انسانیت کا شعور حاصل کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ سماجی ناانصافیوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مزدوروں کا استحصال، غریبوں کا خون، اور ظالم و مظلوم کی کشمکش اس کے دل میں ایک ایسی آگ بھڑکا دیتی ہے جو بجھنے کا نام نہیں لیتی۔

یوں یہ نظم عشق کی ایک اعلیٰ تر شکل کو بیان کرتی ہے جو ذاتی جذبات سے نکل کر اجتماعی کرب کا احساس اور انقلابی بیداری کی علامت بن جاتا ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ  نظم ” رقیب سے” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ

Post Views: 11

Related Posts

Leave a Comment

Adblock Detected

Please support us by disabling your AdBlocker extension from your browsers for our website.