سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح

by Aamir
0 comments

سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح

یہ آرٹیکل سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کی تشریح کا تیسرا حصہ ہے۔ سر سید احمد خان کی مضمون نگاری اردو نثر میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ان کے مضامین سادہ، واضح اور پراثر ہوتے تھے، جن میں عقلی استدلال اور اصلاحی خیالات کی جھلک نمایاں تھی۔ وہ قوم کی تعلیمی و سماجی ترقی کے حامی تھے اور ان کی تحریروں میں جدید علوم، مذہبی رواداری اور سائنسی سوچ کی تبلیغ نظر آتی ہے۔ ان کے مضامین میں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ساتھ عملی اصلاح کی دعوت بھی موجود ہوتی ہے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ جیسے رسالے کے ذریعے انہوں نے اردو نثر کو ایک نیا انداز دیا اور اسے فکری و تنقیدی وسعت عطا کی۔ اس آرٹیکل میں سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیےہماری ویب سائیٹ علمو۔ اردو نوٹس کے لیے اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں۔ اور اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح

سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح
اقتباس
پرانے لوگوں کا مقولہ ہے کہ ’’الناس علی دین ملوکہم۔’‘ اگر اس مقولے میں ’’الناس‘‘ سے چند خاص آدمی مراد لئے جاویں جو بادشاہ کے مقرّب ہوتے ہیں تو یہ مقولہ صحیح ہے اور اگر یہ معنی لئے جاویں کہ رعایا اپنی گورنمنٹ کی سی ہو جاتی ہے تویہ مقولہ صحیح نہیں ہے۔ ریایا کبھی گورنمنٹ کے رنگ میں نہیں رنگی جاتی بلکہ گورنمنٹ رعایا کا سا رنگ بدلتی جاتی ہے۔ نہایت ٹھیک بات ہے کہ گورنمنٹ عموماً ان لوگوں کا جن پر وہ حکومت کرتی ہے عکس ہوتی ہے۔ جو رنگ ان کا ہوتا ہے اسی کا عکس گورنمنٹ میں پایا جاتا ہے۔ جو گورنمنٹ اپنی رعایا سے تہذیب و شائستگی میں آگے بڑھی ہوئی ہے، رعایا اس کو زبردستی سے پیچھے کھینچ لاتی ہے اور جو گورنمنٹ کمتر اور تہذیب و شائستگی میں پیچھے ہوتی ہے وہ ترقی کی دوڑ میں رعایا کے ساتھ کھنچ جاتی ہے۔

تشریح
سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کا اقتباس ہمیں ایک اہم زندگی کے اصول “اپنی مدد آپ” کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ سر سید احمد خان نے اس اقتباس میں ایک اہم حقیقت بیان کی ہے کہ کس طرح حکومت (گورنمنٹ) اور رعایا (عوام) کا آپس میں رشتہ ہوتا ہے اور ان کے اثرات ایک دوسرے پر کیسے پڑتے ہیں۔ انہوں نے ایک قدیم مقولے “الناس علی دین ملوکہم” کا ذکر کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے طریقوں پر چلتے ہیں۔ اس مقولے کو اگر ہم اس طرح سمجھیں کہ “صرف خاص لوگ” جو حکمران کے قریب ہیں، ان کا اخلاق اور عادات حکمران کے مطابق ہوتے ہیں تو یہ مقولہ صحیح ہے، کیونکہ حکمران اپنے مقرّب لوگوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھیں کہ “تمام عوام” اپنی حکومت یا گورنمنٹ کے اخلاقی معیار کے مطابق بدل جاتے ہیں، تو سر سید کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے۔
سر سید احمد خان  نے اس بات کو واضح کیا کہ رعایا کبھی بھی اپنی حکومت کی سی نہیں ہو جاتی، بلکہ گورنمنٹ خود عوام کے اثرات سے بدلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ریایا کبھی گورنمنٹ کے رنگ میں نہیں رنگی جاتی بلکہ گورنمنٹ رعایا کا سا رنگ بدلتی جاتی ہے”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عوام میں تہذیب و شائستگی کی کمی ہے، تو حکومت بھی اس کمی کا شکار ہو جاتی ہے، اور اگر عوام ترقی کے لحاظ سے پیچھے ہیں تو حکومت بھی ان کے ساتھ پیچھے رہ جاتی  ہے۔ (یہ سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح کا دوسرا حصہ ہے۔ اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)

سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس میں یہ بھی کہنا ہے کہ گورنمنٹ دراصل عوام کا عکس ہوتی ہے۔ اگر گورنمنٹ ایک تہذیب یافتہ اور آگے بڑھنے والی حکومت ہو تو عوام اس کے ساتھ ترقی کی راہوں پر قدم نہیں بڑھا پاتے، کیونکہ گورنمنٹ اپنی رعایا کو پیچھے کھینچ لاتی ہے۔ لیکن اگر گورنمنٹ کمتر اور پسماندہ ہو تو پھر وہ عوام کے ساتھ مل کر پیچھے رہ جاتی ہے۔
اپنی مدد آپ کے حوالے سے یہ اقتباس ہمیں بتاتا ہے کہ گورنمنٹ کا کردار عوام کی فلاح و بہبود میں بہت اہم ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی عوام کا اثر بھی حکومت کے کردار کو متاثر کرتا ہے۔ اگر عوام میں آگاہی، تعلیم اور اخلاقی معیار بلند ہوں، تو گورنمنٹ بھی ان کی رہنمائی کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر عوام کی حالت پسماندہ ہو، تو حکومت بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہے۔ اس لیے قومی ترقی اور اصلاح کا انحصار نہ صرف حکومت پر ہے بلکہ عوام کی سوچ اور رویے پر بھی ہے۔ (یہ سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح کا دوسرا حصہ ہے۔ اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)

مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس میں سر سید احمد خان اس اقتباس میں ایک پرانے مقولے “الناس علی دین ملوکہم” کا تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ حکمران اپنے خاص مقربین پر اثر انداز ہوتے ہیں، تو یہ بات درست ہے، لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ پوری رعایا حکمرانوں کے رنگ میں ڈھل جاتی ہے، تو یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت عوام کی تہذیب، اخلاق اور ترقی کا عکس ہوتی ہے۔ اگر عوام پسماندہ ہوں تو حکومت بھی پیچھے رہ جاتی ہے، اور اگر عوام ترقی یافتہ ہوں تو حکومت بھی ترقی کی راہ پر چلتی ہے۔ اس لیے قومی ترقی کا دار و مدار نہ صرف حکومت بلکہ عوام کے رویے اور شعور پر بھی ہوتا ہے۔
مختصراً یہ کہ سر سید احمد خان نے حکومت اور عوام کے باہمی تعلق کو واضح کرتے ہوئے یہ مؤقف پیش کیا کہ حکومت عوام کی عادات و اطوار کا عکس ہوتی ہے۔ عوام حکمرانوں کے رنگ میں نہیں ڈھلتے، بلکہ حکومت عوام کی حالت سے متاثر ہو کر اسی کے مطابق ڈھلتی جاتی ہے۔ اگر عوام ترقی یافتہ ہوں تو حکومت بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے، اور اگر عوام پسماندہ ہوں تو حکومت بھی اسی سطح پر رہ جاتی ہے۔ (یہ سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح کا دوسرا حصہ ہے۔ اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on

Related Posts

Leave a Comment

Adblock Detected

Please support us by disabling your AdBlocker extension from your browsers for our website.