سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح
یہ آرٹیکل سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کی تشریح کا چوتھا حصہ ہے۔ سر سید احمد خان کی مضمون نگاری اردو نثر میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ان کے مضامین سادہ، واضح اور پراثر ہوتے تھے، جن میں عقلی استدلال اور اصلاحی خیالات کی جھلک نمایاں تھی۔ وہ قوم کی تعلیمی و سماجی ترقی کے حامی تھے اور ان کی تحریروں میں جدید علوم، مذہبی رواداری اور سائنسی سوچ کی تبلیغ نظر آتی ہے۔ ان کے مضامین میں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ساتھ عملی اصلاح کی دعوت بھی موجود ہوتی ہے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ جیسے رسالے کے ذریعے انہوں نے اردو نثر کو ایک نیا انداز دیا اور اسے فکری و تنقیدی وسعت عطا کی۔ اس آرٹیکل میں سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے ہماری ویب سائیٹ علمو۔ اردو نوٹس کے لیے اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں۔ اور اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ اور تیسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح
اقتباس
یہ ایک نیچر کا قاعدہ ہے کہ جیسا مجموعہ قوم کی چال چلن کا ہوتا ہے یقینی اسی کے موافق اس کے قانون اور اسی کے مناسب حال گورنمنٹ ہوتی ہے۔ جس طرح کہ پانی خود اپنی پنسال میں آ جاتا ہے، اسی طرح عمدہ رعایا پر عمدہ حکومت ہوتی ہے اور جاہل و خراب وناتربیت یافتہ رعایا پر ویسی ہی اکھڑ حکومت کرنی پڑتی ہے۔ تمام تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ کسی ملک کی خوبی و عمدگی اور قدر و منزلت بہ نسبت وہاں کی گورنمنٹ کے عمدہ ہونے کے زیادہ تر اس ملک کی رعایا کے چال چلن، اخلاق و عادت، تہذیب و شائستگی پر منحصر ہے، کیونکہ قوم شخصی حالتوں کا مجموعہ ہے اور ایک قوم کی تہذیب در حقیقت ان مرد و عورت و بچوّں کی شخصی ترقی ہے، جن سے وہ قوم بنی ہے۔
تشریح
سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس میں جو خیالات پیش کیے ہیں، وہ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ قوموں کی ترقی اور ان کے معاشرتی و سیاسی نظام کا براہ راست تعلق عوام کی اخلاقی حالت، تہذیب، اور چال چلن سے ہوتا ہے۔ وہ یہ بات سمجھاتے ہیں کہ ایک قوم کی ترقی کا انحصار صرف حکومتی نظام یا قانون پر نہیں بلکہ عوام کے عمومی اخلاق اور کردار پر ہوتا ہے۔
سر سید احمد خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک قدرتی اصول ہے کہ “جیسا مجموعہ قوم کی چال چلن کا ہوتا ہے، ویسا ہی اس کے قانون اور گورنمنٹ کا نظام ہوتا ہے”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم کی اکثریت کی چال چلن اور اخلاق اچھے ہوں، تو ان کے لیے ایک اچھے اور بہتر گورنمنٹ کا ہونا ضروری ہے جو ان کی توقعات اور ضروریات کے مطابق ہو۔ جیسے پانی ہمیشہ اپنی پنسال میں آ جاتا ہے، اسی طرح ایک عمدہ رعایا پر عمدہ حکومت قائم ہوتی ہے۔ دوسری طرف، اگر رعایا جاہل، بدکردار، اور ناتربیت یافتہ ہو، تو حکومت بھی انہیں سنبھالنے کے لیے سخت اور اکھڑ نوعیت کی بننا پڑتی ہے۔ (یہ سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح کا چوتھا حصہ ہے۔ اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ اور تیسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
سر سید احمد خان نے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کے اس حصے میں اس بات پر زور دیا کہ ایک قوم کی خصوصیت اور مقام اس کی گورنمنٹ کے معیار سے زیادہ اس کی رعایا کی حالت پر منحصر ہوتی ہے۔ یعنی، ایک قوم کی قدر اس بات میں نہیں ہے کہ وہاں کی حکومت کتنی طاقتور یا ترقی یافتہ ہے، بلکہ اس بات میں ہے کہ وہاں کے لوگ کتنے تربیت یافتہ، مہذب، اور اخلاقی طور پر بلند ہیں۔ ایک قوم کی ترقی اور اچھائی دراصل اس کے افراد کی شخصی حالت کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اگر ایک قوم کے افراد اخلاقی لحاظ سے بلند ہوں، محنتی ہوں، اور معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوں، تو وہ قوم خود بخود ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے، چاہے اس کی گورنمنٹ کیسی بھی ہو۔
یہاں تک کہ اگر کسی قوم کی گورنمنٹ بہترین نظام پر قائم ہو، پھر بھی اگر اس کی رعایا میں اخلاقی پسماندگی ہو، تو وہ گورنمنٹ اس قوم کی ترقی کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی۔ اس کے برعکس، اگر عوام اخلاقی طور پر کمزور ہوں، تو حکومتی قوانین اور حکومتی نظام بھی اُن کے لیے مفید ثابت نہیں ہو پاتے۔ مثال کے طور پر، اگر حکومت اچھے قوانین بناتی ہے مگر عوام میں ان قوانین کی پابندی کرنے کی شعور نہیں ہوتا، تو اس حکومت کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ (یہ سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح کا چوتھا حصہ ہے۔ اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ اور تیسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
سر سید کا کہنا ہے کہ قوم کی تہذیب در حقیقت اس کے افراد کی شخصی ترقی کا عکاس ہے۔ جب افراد معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے بہتر ہو جائیں گے، تو قوم بھی ترقی کرے گی۔ ان کے مطابق، قوم کی ترقی کا راستہ فرد کی ترقی سے ہو کر گزرتا ہے، اور فرد کی ترقی اخلاقی، ذہنی، اور سماجی سطحوں پر ہونی چاہیے۔ اسی طرح ایک قوم کی تہذیب و شائستگی کا انحصار اس کے افراد کے طرز عمل، ان کے اخلاق، اور ان کی اجتماعی ذمہ داریوں پر ہے۔
سر سید احمد خان کے اس فلسفے کا مقصد یہ ہے کہ قوموں کی ترقی صرف حکومت یا قانون کی طاقت سے نہیں بلکہ ان افراد کی بہتر تربیت، اخلاق اور ذہنی ترقی سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک قوم کی گورنمنٹ اس کی رعایا کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک قوم میں اگر بدی، اخلاقی فساد، اور ناتربیت کا غلبہ ہو تو اس کی حکومت بھی ان خرابیوں کو قابو کرنے کے لیے سخت اقدامات کرے گی اور اس کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔
مضمون اپنی مدد آپ کے اس اقتباس میں سر سید احمد خان ہمیں سکھاتے ہیں کہ خود اعتمادی، اخلاقی تربیت، اور انفرادی محنت ایک قوم کی ترقی کے بنیادی اصول ہیں، اور یہی چیزیں قومی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے سب سے زیادہ اہم ہیں۔ ایک قوم کی تہذیب میں اصلاح کا عمل انفرادی سطح پر شروع ہوتا ہے، اور جب ہر فرد میں بہتر اخلاقی معیار پیدا ہوتا ہے، تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ نتیجتاً، قوم کی ترقی بھی ممکن ہوتی ہے، اور اس کے نتیجے میں حکومت خود بخود بہتر ہو جاتی ہے۔ (یہ سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح کا چوتھا حصہ ہے۔ اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ اور تیسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
مجموعی طور پر سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس میں یہ واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی اور اس کے سیاسی و معاشرتی نظام کا انحصار اس قوم کے افراد کی اخلاقی حالت، تہذیب، اور چال چلن پر ہوتا ہے۔ حکومت درحقیقت عوام کی حالت کا عکس ہوتی ہے۔ اگر عوام مہذب، تعلیم یافتہ اور بااخلاق ہوں، تو حکومت بھی ترقی یافتہ اور شائستہ ہوگی، اور اگر عوام جاہل اور غیر تربیت یافتہ ہوں، تو حکومت بھی سخت اور اکھڑ ہو جائے گی۔ قوم کی حقیقی ترقی کا دار و مدار حکومت سے زیادہ اس کے افراد کی ذاتی اور اجتماعی تربیت پر ہوتا ہے۔ (یہ سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح کا چوتھا حصہ ہے۔ اس آرٹیکل کا پہلا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔ اور دوسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ اور تیسرا حصہ ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔