سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح

by Aamir
0 comments

سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح

سر سید احمد خان کی مضمون نگاری اردو نثر میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ ان کے مضامین سادہ، واضح اور پراثر ہوتے تھے، جن میں عقلی استدلال اور اصلاحی خیالات کی جھلک نمایاں تھی۔ وہ قوم کی تعلیمی و سماجی ترقی کے حامی تھے اور ان کی تحریروں میں جدید علوم، مذہبی رواداری اور سائنسی سوچ کی تبلیغ نظر آتی ہے۔ ان کے مضامین میں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ساتھ عملی اصلاح کی دعوت بھی موجود ہوتی ہے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ جیسے رسالے کے ذریعے انہوں نے اردو نثر کو ایک نیا انداز دیا اور اسے فکری و تنقیدی وسعت عطا کی۔ اس آرٹیکل میں سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔  مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے  ویب سائیٹ علمو۔ اردو نوٹس کے لیے اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں۔

سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح

سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح۔
اقتباس
خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔
یہ ایک نہایت عمدہ اور آزمودہ مقولہ ہے۔ اس چھوٹے سے فقرے میں انسانوں کا اور قوموں کا اور نسلوں کا تجربہ جمع ہے۔ ایک شخص میں اپنی مدد کرنے کا جوش اس کی سچی ترقی کی بنیاد ہے اور جب یہ جوش بہت سے شخصوں میں پایا جاوے تو وہ قومی ترقی اور قومی طاقت اور قومی مضبوطی کی جڑ ہے۔ جب کہ کسی شخص کے لیے یا کسی گروہ کے لیے کوئی دوسرا کچھ کرتا ہے تو اس شخص میں سے یا اس گروہ میں سے وہ جوش اپنی مدد آپ کرنے کی کم ہو جاتا ہے اور ضرورت اپنے آپ مدد کرنے کی اس کے دل سے مٹتی جاتی ہے اور اسی کے ساتھ غیرت جو ایک نہایت عمدہ قوت انسان میں ہے اور اسی کے ساتھ عزت جو اصلی چمک دمک انسان کی ہے از خود جاتی رہتی ہے اور جب کہ ایک قوم کی قوم کا یہ حال ہو تو وہ ساری قوم دوسری قوموں کی آنکھ میں ذلیل اور بے غیرت اور بے عزت ہو جاتی ہے۔
آدمی جس قدر کہ دوسرے پر بھروسے کرتے جاتے ہیں، خواہ اپنی بھلائی اور اپنی ترقی کا بھروسہ گورنمنٹ ہی پر کیوں نہ کریں (یہ امر بدیہی اور لا بدی ہے) وہ اسی قدر بے مدد اور بے عزت ہوتے جاتے ہیں۔ اے میرے ہم وطن بھائیو! کیا تمہار ا یہی حال نہیں ہے؟ ایشیا کی تمام قومیں یہی سمجھتی رہی ہیں کہ اچھا بادشاہ ہی رعایا کی ترقی اور خوشی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یورپ کے لوگ جو ایشیا کے لوگوں سے زیادہ ترقی کر گئے تھے، یہ سمجھتے تھے کہ ایک عمدہ انتظام قوم کی عزت و بھلائی و خوشی اور ترقی کا ذریعہ ہے، خواہ وہ انتظام باہمی قوم کے رسم و رواج کا ہو، یا گورنمنٹ کا۔ اور یہی سبب ہے کہ یورپ کے لوگ قانون بنانے والی مجلسوں کو بہت بڑا ذریعہ انسان کی ترقی اور خیال کرکر ان کا درجہ سب سے اعلیٰ اور نہایت بیش بہا سمجھتے تھے، مگر حقیقت میں یہ سب خیال غلط ہیں۔

تشریح
سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کا اقتباس ہمیں ایک اہم زندگی کے اصول “اپنی مدد آپ” کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اپنی مدد آپ سے مراد اپنے معاملات اور مسائل کے حل کے لیے مسلسل کوشش کرنا ہے، جسے ہم عملِ پیہم کا نام بھی دے سکتے ہیں۔  اپنی مدد آپ کا یہ احساس نہ صرف فرد کی ترقی بلکہ قوموں کی ترقی کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ احساس جس شخص میں موجود ہے وہ شخص تری کرتا ہے اور اگر قوم میں ہو تو قوم ترقی کرتی ہے۔  سر سید کے مطابق، انسان اور قوم کی ترقی کا راز اس بات میں ہے کہ وہ اپنے وسائل، محنت، اور کوششوں پر بھروسہ کریں اور دوسروں پر انحصار کم سے کم کریں۔ اس فقرے میں سر سید نے ہمیں سکھایا ہے کہ ترقی کی اصل بنیاد خوداعتمادی اور  خودانحصاری میں ہے۔
سر سید احمد خان کا کہنا ہے کہ جب فرد یا قوم کسی دوسرے پر مکمل انحصار کرنے لگتی ہے، تو اس کے اندر جوش اور جذبہ کم ہو جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ اس کی ترقی اور خوشحالی دوسرے کی مدد یا کسی حکومتی نظام پر منحصر ہے، تو وہ اپنی حقیقی طاقت اور صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرتا۔ اس کے نتیجے میں، اس کی غیرت، عزت، اور خودداری میں کمی آ جاتی ہے۔ جب یہ کیفیت ایک قوم میں پھیل جاتی ہے، تو وہ قوم نہ صرف اقتصادی طور پر کمزور ہو جاتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی عزت اور وقار متاثر ہوتا ہے۔

سر سید احمد خان نے اس بات کو یورپ اور ایشیا کی قوموں کے حوالے سے واضح کیا ہے۔ یورپی ممالک نے اپنی ترقی کا راز قانون اور اچھے انتظام میں پایا، اور یہی وجہ ہے کہ ان قوموں نے خود کو مضبوط کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، سر سید نے بتایا کہ اصل کامیابی کا دارومدار صرف حکومتی نظام یا قانون پر نہیں، بلکہ انفرادی محنت، خود انحصاری، اور قوم کے ہر فرد کی ذاتی جدوجہد پر ہے۔ سر سید نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ جب فرد یا قوم دوسرے پر انحصار کرتی ہے تو اس میں عزت نفس اور غیرت کم ہونے لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قومیں دوسروں کی مدد پر زیادہ انحصار کرتی ہیں، وہ اپنی خودمختاری اور عزت کھو بیٹھتی ہیں، اور دوسری قوموں کے سامنے ذلیل ہو جاتی ہیں۔

اقتباس کے دوسرے پیرا گراف میں سر سید احمد خان اپنی مدد آپ کے موضوع کے حوالے سے مزید تفصیل بیان کرنے کے لیے ہورپ اور ایشا کے نظامموں کی مثالیں سامنے لاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپ کے معاشرتی اور انتظامی ڈھانچے کا ذکر کرتے ہوئے سر سید احمد خان نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اگرچہ حکومتی نظام یا قانون قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ان کے بقول حقیقی ترقی صرف اس وقت ممکن ہے جب فرد اپنے اندر محنت اور عزم کی طاقت پیدا کرے۔ اس کے بغیر صرف اچھا حکومتی نظام یا قانون قوم کی تقدیر کو نہیں بدل سکتا۔ ان تمام نکات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سر سید احمد خان کا پیغام یہ ہے کہ فرد اور قوم کی ترقی کے لیے خوداعتمادی، محنت، اور اپنے وسائل پر انحصار کرنا ضروری ہے۔ جب افراد اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرتے ہیں کہ وہ اپنے طور پر اپنے مسائل حل کریں گے اور دوسروں پر انحصار نہیں کریں گے، تو یہی جذبہ قوم کی اجتماعی ترقی کی بنیاد بن جاتا ہے۔ (اس آرٹیکل میں سر سید احمد خان کے مضمون اپنی مدد آپ کے اقتباس کی تشریح پیش کی گئی، اس قسم کی مزید معلومات کے لیے ہماری ویب سائیٹ علمو ملاحظہ کیجیے)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on

Related Posts

Leave a Comment

Adblock Detected

Please support us by disabling your AdBlocker extension from your browsers for our website.