غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
آرٹیکل حیدر علی آتش کی تحریر غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ حیدر علی آتش اردو کے نامور اور صاحب طرز غزل گو شاعر ہیں جنہوں نے آنے والے وقتوں پر شاعری کے گرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے ویب سائیٹ علمو۔ اردو نوٹس کے لیے اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 1: سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
تشریح۔ غزل ” سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا” کے اس شعر میں شاعر حیدر علی آتش مخاطب سے سوال کررہے ہیں کہ دنیا میں تمہاری کہانی کیا ہے؟ تمہاری حقیقت اور شہرت کا کیا حال ہے؟ شاعر کہتا ہے کہ اے انسان، سن لے کہ اس دنیا میں تیرا فسانہ (کہانی) کیا ہے۔ یہاں “فسانہ” سے مراد انسان کی زندگی کی کہانی ہے جو اس دنیا میں گزرتی ہے۔ شاعر انسان کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی حقیقت کو سمجھے اور اس پر غور کرے۔ انسان کی زندگی ایک کہانی کی مانند ہے جو اس دنیا میں لکھی جا رہی ہے، لیکن اس کہانی کا انجام کیا ہوگا، یہ انسان کے اپنے اعمال پر منحصر ہے۔
خدا کی مخلوق (یعنی لوگ) تجھے غائبانہ کیا کہہ رہی ہے۔ “غائبانہ کیا” سے مراد ہے کہ لوگ تیرے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں، تیرے غیاب میں تیرے بارے میں کیا باتیں کر رہے ہیں۔ “غائبانہ” سے مراد یہ ہے کہ تمہاری حقیقت اور اہمیت صرف تم تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے، لیکن تمہاری اصل حقیقت یا فسانہ کچھ اور ہی ہے، جو تمہیں دنیا سے چھپایا گیا ہے۔ شاعر انسان کو یاد دلاتا ہے کہ وہ اپنے اعمال اور اپنی زندگی کے بارے میں سوچے، کیونکہ لوگ اس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ اس میں ایک قسم کا سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ تمہارے اندر کیا ایسا ہے جو لوگوں نے نہ صرف جانا، بلکہ اس پر بات بھی کی؟ گویا، یہ شعر انسانی شخصیت کی گہرائی کو بیان کرتا ہے کہ صرف ظاہری شہرت کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے جو حقیقت ہے، وہ زیادہ اہم ہوتی ہے۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 2: کیا کیا الجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر محبوب کے بالوں کی پیچیدگیوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ “زلفوں کے تار” سے مراد ہے کہ محبوب کے بالوں میں الجھاؤ، جو ان کے جمال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ یہ بالوں کا پیچیدہ ہونا ایک علامت ہے، جو زندگی کے پیچیدہ اور مشکل مسائل کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔ یہاں شاعر کہتا ہے کہ تیرے سینے میں صد چاک (سینے کے زخم) ہیں اور شانہ (بالوں کو سنوارنے کا آلہ) کیا ہے۔ “صد چاک” سے مراد انسان کے دل کے زخم ہیں جو اس کی زندگی میں ہوتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کے دل میں کئی زخم ہیں جو اسے تکلیف دیتے ہیں، لیکن وہ ان زخموں کو چھپانے کے لیے اپنے بالوں کو سنوارتا ہے۔
شاعر کا کہنا ہے کہ جب انسان اپنی پیچیدگیوں میں گم ہو جاتا ہے، تو اسے راحت یا سکون کا طلب ہو جاتا ہے، جیسے “بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک” (دل کے زخموں کا علاج کرنے کی آرزو)۔ یہاں دل کے زخموں اور جذباتی پیچیدگیوں کو محبوب کے بالوں کی الجھن سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ تیری زلفوں (بالوں) کے تاروں سے کیا کیا الجھتا ہے۔ یہاں “زلفوں کے تار” سے مراد انسان کی زندگی کی پیچیدگیاں اور مشکلات ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کی زندگی میں کئی طرح کی پیچیدگیاں اور مشکلات ہیں جو اسے الجھا دیتی ہیں۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 3: زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زر بکف قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں قارون کے واقع کو بطور تلمیح استعمال کیاگیا ہے۔ قارون کی تلمیح قرآنِ مجید اور ادب میں ایک اہم تلمیح ہے۔ قارون ایک تاریخی شخصیت ہے جو بنی اسرائیل کے ایک اہم فرد تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں تھا۔ قرآن میں اس کا ذکر سورہ القصص (آیت 76-82) اور سورہ غافر (آیت 24-30) میں آیا ہے۔
قارون ایک دولت مند شخص تھا جس نے اپنی دولت اور طاقت کو غرور اور تکبر کے لیے استعمال کیا، اور وہ سمجھتا تھا کہ اس کی دولت صرف اس کی محنت کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس کا غرور اس کی تباہی کا سبب بنا، اور اللہ نے اسے زمین میں دھنساکر سزا دی۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اپنی دولت پر غرور نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اللہ کی رضا اور احکام کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے، کیونکہ دنیا کی دولت عارضی ہوتی ہے۔
شاعر قارون کی تلمیح کو استعمال کرتے ہوئے پھولوں کی خوب صورتی کو بھی بیان کر رہا ہےاور محنت کا راز بھی بتا رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جو گل (پھول) زیر زمین سے آتا ہے، وہ زر (سونا) بکف (ہاتھ میں) لے کر آتا ہے۔ یہاں “گل” سے مراد انسان کی کامیابی کو بھی لیا جا سکتا ہے جو اس کی محنت کا نتیجہ ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کی کامیابی اس کی محنت کا نتیجہ ہے جو وہ زیر زمین (یعنی چھپ کر) کرتا ہے۔شاعر کا کہنا ہے کہ جیسے قارون کے خزانے زمین میں چھپے تھے اور جب تک انہیں دریافت نہیں کیا گیا تھا، ان کی حقیقت لوگوں سے مخفی تھی، اسی طرح انسان کی محنت اور جوہر دنیا سے چھپے ہوتے ہیں، مگر ایک دن وہ ظاہر ہو جاتے ہیں اور دنیا کو حیران کر دیتے ہیں۔ اس شعر میں انسان کی محنت اور تقدیر کی خوبصورتی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہاں شاعر کہتا ہے کہ قاروں نے راستے میں خزانہ لٹا دیا۔ قاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو دولت کے لالچ میں دوسروں کو لوٹتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کی کامیابی کو راستے میں لوٹ لیا جاتا ہے، کیونکہ لوگ دولت کے لالچ میں دوسروں کو لوٹتے ہیں۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 4: اڑتا ہے شوق راحت منزل سے اسپ عمر مہمیز کہتے ہیں گے کسے تازیانہ کیا
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر اس شعر میں انسان کے شوق اور آرزو کو بیان کر رہے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ عمر کا گھوڑا (اسپ عمر) شوق سے راحت منزل (آرام کی جگہ) کی طرف اڑتا ہے۔ یہاں “اسپ عمر” سے مراد انسان کی عمر یا زندگی ہے جو گھوڑے کی مانند تیزی سے گزرتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کی عمر تیزی سے گزرتی ہے جبکہ وہ آرام کی جگہ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ انسان کی آرزو اور جستجو ، اسے اپنی منزل سے دور کر دیتی ہے، جیسے ایک تیز رفتار گھوڑا جسے لگام نہیں دی گئی ہو۔ یہاں “مہمیز” سے مراد وہ تیز دھکیل یا قوت ہے جو انسان کو اس کی منزل تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ شاعر یہاں اس بات کو بیان کر رہے ہیں کہ انسان کی جستجو کبھی ختم نہیں ہوتی اور وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے مسلسل محنت کرتا رہتا ہے، چاہے راستے میں مشکلات ہی کیوں نہ ہوں۔
شوق اور آرزو انسان کو عمر بھر منزل تک پہنچنے کی جدوجہد پر مجبور کرتی ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے مقصد کی جانب بڑھتا ہے، تو اس کی کوششیں اور محنت ہی اُس کو کامیابی کی طرف مہمیز (ابھار) دیتی ہیں۔ تازیانہ (سخت سزا) دراصل اُس کے محنت کرنے کی ترغیب بن جاتی ہے، جو اُس کو راستے پر قائم رکھتی ہے۔ یعنی اس شعر میں شاعر یہ کہہ رہا ہے کہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد اور محنت ضروری ہے، اور مشکلات یا تکالیف بھی انسان کو آگے بڑھنے کی طاقت دیتی ہیں۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 5: زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا
تشریح۔ اس شعر میں شاعر اس بات کو بیان کر رہے ہیں کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی بلند مقام یا محبت کی تلاش میں رہتا ہے۔ شاعر کی اپنی ذات(مشتِ خاک) “زینہ صبا” یعنی صبح کی ہوا کا مقام تلاش کرتی ہے۔ یہاں “مشت خاک” سے مراد انسان کا جسم ہے جو مٹی سے بنا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کا جسم صبا (ہوا) کے زینے کو ڈھونڈتا ہے، یعنی وہ اپنی روحانی بلندی کی تلاش میں ہے۔
یہاں شاعر کہتا ہے کہ یار (محبوب) کا بام بلند (اونچا محل) اور اس کا آستانہ (دہلیز) شاعر جیسے عاجز بندے کی نظر میں کیا چیزہے۔ اس کے لیے محبوب کا عالی شان محل کوئی معنی نہیں رکھتا کیوں کہ اسے اپنی منزل کا عرفان حاصل ہو گیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ دنیا کا یہ مقام اس کے شایانِ شان نہیں ہے۔ شاعر اس دنیاوی اور عارضی محبت و مقام سے نظر پھیر لیتاہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کا محبوب اس کی روحانی بلندی کا مقام ہے، جس تک پہنچنے کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ انسان ہمیشہ اپنی آرزو کو حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرتا ہے، اور اس کی منزل وہ بلند مقام ہوتی ہے جو اسے اپنے محبوب یا کسی عظیم مقصد کے قریب لے جاتی ہے۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 6: چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر نے بہت خوبصورتی سے دل کی صفائی اور محبت کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ “صورت جاناں” یعنی محبوب کی شکل یا محبوب کا حسن اور اس کی موجودگی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ جب محبوب کا حسن اور اس کی موجودگی دل کے چاروں طرف چھا جائے، یعنی جب محبوب کی ہر بات، ہر عکس دل میں بسا ہو، تو انسان کا دل بالکل صاف اور روشن ہو جاتا ہے۔
شاعر اس شعر کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ جب دل میں سچی محبت اور خلوص ہوتا ہے، تو انسان کا دل ایک آئینے کی طرح صاف اور سچائی سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس حالت میں، انسان ہر چیز کو ایک مثبت اور صاف نظر سے دیکھتا ہے، جیسے آئینے میں سچائی صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہاں یہ بھی اشارہ ہے کہ محبت ایک ایسی قوت ہے جو دل کی صفائی اور روح کی روشنی کا باعث بنتی ہے۔ اس شعر میں محبوب کا جمال اور دل کی صفائی ایک دوسرے سے جڑ کر ایک خوبصورت معنی پیدا کرتے ہیں، جو محبت کی اصل حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ یہ شعر انسان کی روحانی صفائی اور محبت کی عظمت کو نمایاں کرتا ہے۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 7: صیاد اسیر دام رگ گل ہے عندلیب دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے دام و دانہ کیا
تشریح۔ شاعر اس شعر میں ایک گہرے اور پیچیدہ تعلق کو بیان کر رہے ہیں۔ “صیاد” یعنی شکار کرنے والا، جو کہ عندلیب (بلبل) کو اپنے دام میں پھانس رہا ہے۔ “دام و دانہ” سے مراد ہے وہ جال اور لالچ جس سے وہ شکار کو اپنی گرفت میں لاتا ہے۔ شاعر یہاں کسی فریب یا جذباتی جال کی بات کر رہے ہیں، جہاں محبوب یا دنیا کی چمک دمک انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ وہ دکھاتے ہیں کہ انسان کو اپنی حالت اور جذبات کی حقیقت کو پہچاننا ضروری ہے، کیونکہ دنیا میں بہت سے فریب ہیں جو انسان کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں۔
شاعر کہتا ہے کہ عندلیب (بلبل) صیاد (شکاری) کے دام (جال) میں اسیر ہو گئی ہے۔ یہاں “عندلیب” سے مراد انسان کی روح ہے جو صیاد (شیطان) کے جال میں پھنس گئی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کی روح شیطان کے جال میں پھنس گئی ہے اور وہ اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہاں شاعر کہتا ہے کہ صیاد (شکاری) عندلیب (بلبل) کو چھپ کر دام (جال) اور دانہ (چارہ) دکھا رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ شیطان انسان کو چھپ کر جال اور چارہ دکھا رہا ہے تاکہ وہ اس میں پھنس جائے۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 8: طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر حیدر علی آتش اپنی عاجزی اور خاک ساری کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں میرے پاس طبل (ڈھول) اور علم (جھنڈا) ہی ہے، ملک و مال نہیں ہے ۔ یہ دولت ہے نہ جائیداد ہے، نہ زمینیں ہیں ، نہ سونا چاندی ہیرے جواہرات ہیں۔ ان کے پاس دولت اور ملک نہیں ہے، بلکہ اس کے پاس صرف اس کا علم اور شاعری ہے۔
ہم جیسے ناکام اور عاجز انسان سے زمانہ دشمنی مول کر کیا حاصل کرے گا۔ زمانہ اور زمانے والے وہاں دشمنی مول لیتے ہیں جہاں ان کا فائدہ ہو انہیں کچھ میسر آئے۔ لیکن یہاں تو دنیا کو کوئی مالِ غنیمت نہیں ملے گا۔ نیز شاعر کہتا ہے کہ اگر زمانہ اس کے خلاف ہو جائے تو بھی وہ اپنے علم اور شاعری کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 9: آتی ہے کس طرح سے مرے قبض روح کو دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
تشریح۔غزل کے اس شعر میں شاعر موت کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ موت بر حق ہے اور دنیا بل کہ کائنات کی ہر چیز پر موت آنی ہے۔ قرآن میں بھی خدا نے کہا ہے “ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے”۔ یعنی اس کائنات کی ہر چیز خواہ وہ پہاڑ ہوں، زمین ہو، چاند ہو، ستارے ہوں، سیارے ہوں، سورج ہو، یا دیگر بڑے بڑے اجرام فلکی ہوں، چاہے وہ ایسے بڑے بڑے اجسام ہوں، یا پھر چھوٹی سے چھوٹی چیز ، چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہو یا خورد بین سے دکھنے والا کوئی جراثیم ہو۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہر ایک چیز کو موت آ جانی ہے۔
کیا بھروسہ ہے زندگانی کا آدمی بلبلہ ہے پانی کا
سو اس سے تو کوئی شک نہیں کہ موت نے آنا ہے، بس اب دیکھنا یہ ہے کہ موت آتی کس طرح سے ہے۔ موت کون سا بہانہ تلاش کر رہی ہے اور کس طرح سے آ کے میری زندگی کا قصہ تمام کرتی ہے۔ اب ہر شخص کو مختلف طرح سے موت آتی ہے۔ کوئی جوانی میں مرتا ہے، کوئی جل کر مرتا ہے، کسی کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے، کوئی بڑھاپے میں کسی بیماری کی وجہ سے مرتا ہے، کوئی ڈوب کر مر جاتا ہے، کوئی میدان میں شہادت حاصل کرتا۔ سو اب دیکھنا یہ ہے کہ مجھ تک موت آتتی ہے تو وہ کس طرح سے اور کون سا بہانہ تلاش کر کے مجھ تک آتی ہے۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 10: ہوتا ہے زرد سن کے جو نامرد مدعی رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا
تشریح۔ اس شعر میں شاعر اس بات کو بیان کر رہے ہیں کہ جب ایک شخص حقیقت کے سامنے آتا ہے تو اس کا دعویٰ کمزور پڑ جاتا ہے۔ “نامرد مدعی” سے مراد ہے وہ شخص جو حقیقت سے بے بہرہ ہے اور صرف زبان سے دعوے کرتا ہے۔ “رستم کی داستاں” سے مراد ہے وہ عظیم داستان جو حقیقت پر مبنی ہے۔ شاعر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور سچ پر قائم رہتے ہیں، ان کی حقیقت کسی داستان سے کم نہیں ہوتی۔
شاعر کہتا ہے کہ جو نامرد (بزدل) مدعی (دعویٰ کرنے والا) ہوتا ہے، وہ زرد (پیلے) سن (چہرے) کا ہوتا ہے۔ یہاں “نامرد مدعی” سے مراد وہ لوگ ہیں جو بزدل ہوتے ہیں اور دوسروں پر بے بنیاد دعوے کرتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کا چہرہ پیلے رنگ کا ہوتا ہے، کیونکہ وہ بزدل ہوتے ہیں۔
یہاں شاعر کہتا ہے کہ رستم کی داستاں (کہانی) ہمارا فسانہ (کہانی) کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ رستم کی کہانی ہماری کہانی سے کتنی مختلف ہے، کیونکہ رستم بہادر تھا جبکہ ہمارے زمانے کے لوگ بزدل ہیں ۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 11: ترچھی نگہ سے طائر دل ہو چکا شکار جب تیر کج پڑے تو اڑے گا نشانہ کیا
تشریح۔ شاعر یہاں کسی کی نظر یا ایک خاص زاویے سے دل کے شکار ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ “ترچھی نگہ” یعنی کسی کی ایک مخصوص اور چالباز نظر سے دل گرفتار ہو جاتا ہے۔ یہ نظر ایسی ہوتی ہے جو محبت یا چالبازی سے دل کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔ شاعر یہ کہتے ہیں کہ جب انسان کے جذبات پر ایسا حملہ ہوتا ہے، تو وہ اپنے اہداف سے ہٹ کر ایک غلط سمت میں چلا جاتا ہے، جیسے تیر کی کجی اور غلط نشانہ۔
شاعر کہتا ہے کہ ترچھی نگہ (ترچھی نظر) سے طائر دل (دل کا پرندہ) شکار ہو چکا ہے۔ یہاں “طائر دل” سے مراد انسان کا دل ہے جو پرندے کی مانند ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ترچھی نظر (حسد) نے دل کے پرندے کو شکار کر لیا ہے۔ یہاں شاعر کہتا ہے کہ جب تیر کج (ترچھا) پڑے گا تو نشانہ کیا اڑے گا۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر تیر (حسد) کج ہو گا تو نشانہ (دل) بھی کج ہو جائے گا۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 12: صیاد گل عذار دکھاتا ہے سیر باغ بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
تشریح۔ اس شعر میں شاعر نے بلبل اور گلاب کی مثال دی ہے، جہاں “صیاد” یعنی شکار کرنے والا، بلبل کو گلاب کے باغ میں لے جا کر دکھاتا ہے۔ لیکن بلبل ہمیشہ اپنے قفس کو یاد کرتا رہتا ہے۔ شاعر اس سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان جتنا بھی دنیا کے حسین رنگ دیکھے، وہ اپنی اصل حقیقت کو، اپنے مقصد کو، اور اپنی روحانی آزادی کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ صیاد (شکاری) گل عذار (خوبصورت پھول) کو باغ کی سیر دکھاتا ہے۔ یہاں “گل عذار” سے مراد انسان کی خوبصورتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ شیطان انسان کو باغ کی سیر دکھاتا ہے تاکہ وہ اس میں پھنس جائے۔
یہاں شاعر کہتا ہے کہ بلبل (عندلیب) قفس میں اپنے آشیانہ (گھونسلے) کو یاد کرتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کی روح قفس (جسم) میں اپنے آشیانہ (جنت) کو یاد کرتی ہے۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 13: بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں مہماں سرائے جسم کا ہوگا روانہ کیا
تشریح۔ اس شعر میں شاعر اس بات کو بیان کر رہے ہیں کہ دنیا میں انسان کا دل ہمیشہ بے چین رہتا ہے، اور وہ ہمیشہ اپنی روحانی تکمیل کی جستجو میں رہتا ہے۔ “مہمان سرائے جسم کا” سے مراد ہے کہ جسم صرف ایک عارضی سرائے (ہوسٹلی) ہے، جہاں انسان کی روح کی عارضیت کو محسوس کیا جاتا ہے۔ انسان کا کمال اور سکون اس کے جسم کے باہر ہے، اور وہ اپنی حقیقت کے سفر میں مخلص رہتا ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ ہمارا دل حزیں (غمزدہ) کمال (عشق) سے بیتاب ہے۔ یہاں “دل حزیں” سے مراد انسان کا دل ہے جو غمزدہ ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کا دل عشق سے بیتاب ہو جاتا ہے۔
یہاں شاعر کہتا ہے کہ مہمان (روح) سرائے جسم (جسم کے گھر) سے روانہ ہو جائے گا۔ شاعر کہتا ہے کہ روح جسم کے گھر سے نکل جائے گی اور وہ اپنے اصل گھر (جنت) کی طرف لوٹ جائے گی۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
شعر 14: یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
تشریح۔ آخرکار شاعر اپنی غزل کا اختتام ایک دعوے کے ساتھ کرتے ہیں کہ جو لوگ حسد کرتے ہیں، انہیں داد نہ دی جائے۔ یہ غزل محبت اور عاشقانہ جذبے کی داستان ہے۔ “آتشؔ غزل یہ تو نے کہی” میں شاعر نے اپنے جذبے کو اور اپنے کلام کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ خالصتاً محبت اور عشق کی نمائندگی کرتا ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ اگر مدعی (دعویٰ کرنے والا) حسد سے داد (تعریف) نہ دے تو نہ دے۔ یہاں “مدعی” سے مراد وہ لوگ ہیں جو حسد کی وجہ سے دوسروں کی تعریف نہیں کرتے۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر ایسے لوگ تعریف نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں، کیونکہ اس کی غزل عاشقانہ ہے۔ یہاں شاعر کہتا ہے کہ آتشؔ (شاعر) نے یہ غزل عاشقانہ کہی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس کی غزل عاشقانہ ہے اور وہ اس کی تعریف کی پرواہ نہیں کرتا۔ غزل سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کی تشریح ۔ حیدر علی آتش
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔
ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔