غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی

by Aamir
0 comments

غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی

ناصر کاظمی کی یہ غزل میں محبت، وفا، اور زندگی کی پیچیدگیاں بیان کی گئی ہیں۔ یہ غزل ایک گہرے اور پیچیدہ جذبات کی عکاسی کرتی ہے، جس میں شاعر اپنی زندگی کی مختلف کیفیتوں کو بیان کرتا ہے۔ اس غزل کے ہر شعر میں شاعر کی تنہائی، تلاش اور وہ لمحے ہیں جب محبت یا خوشی کی کمی محسوس ہوتی ہے، اور پھر وہ پیار یا محبت کی موجودگی کو اپنے زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کے طور پر مانتا ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے  ویب سائیٹ علمو۔ اردو نوٹس کے لیے اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں۔غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی

 

غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی

شعر1۔   غم ہے یا خوشی ہے تو  میری زندگی ہے تو
مفہوم۔   اے میرے محبوب چاہے تو غم دے یا چاہے تو مجھے خوشی دے، کوئی بھی صورت میں صرف میں جانتا ہون کہ میری زندگی تجھ ہی سے ہے۔ تشریح۔  اس شہرۂ آفاق غزل غم ہے یا خوشی ہے تو کے اس شعر میں شاعر ناصر کاظمی  اپنے محبوب سے مخاطب ہیں۔ اس شعر میں شاعر اس شعر میں
اپنی محبت کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ چاہے اس کی زندگی میں خوشی ہو یا غم، اس کی حقیقت صرف اس ایک ہی شخص کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ چاہے اس شخص کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے خوشیاں ملیں اور میری دنیا جنت بن جائے، یا چاہے مجھے اس کا ساتھ دیتے ہوئے مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے، جو بھی صورت حال ہو، میں بس اتنا جانتا ہوں کہ میں نے اس شخص کا ساتھ تمام عمر کے لیے دینا ہے۔ اس شخص کے بغیر، میری زندگی بے مقصد اور خالی ہو جائےگی۔ اس اظہار میں ناصر کاظمی نے انسانی جذبات کی شدت کو بیان کیا ہے کہ کسی محبوب کی موجودگی یا غیاب میں ہی انسان کی زندگی کا سکون یا درد بستہ ہوتا ہے۔ شاعر اپنی زندگی کا اصل مقصد یا مرکز اپنے محبوب کو بیان کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی کا کوئی مطلب یا حقیقت نہیں اگر زندگی میں وہ شخص نہ ہو جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ غم ہو یا خوشی، وہ شخص ہی اس کی زندگی کی حقیقت ہے۔ اس شعر میں انسان کی زندگی کا دلی تعلق اور اس کی محبت کو اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت میں ہی ساری خوشیاں اور غم سمائے ہوتے ہیں، اور جو شخص اس کی زندگی میں ہے، وہی اس کے لیے سب کچھ ہے۔ (غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی)

شعر2۔   آفتوں کے دور میں  چین کی گھڑی ہے تو
مفہوم
۔   آفتوں اورمشکلات کے اس دور میں اے میرے محبوب تو ہی میرا سکون ہے۔
تشریح۔  اس شہرۂ آفاق غزل غم ہے یا خوشی ہے تو کے اس شعر میں شاعر ناصر کاظمی  اپنے محبوب کو اس کی اہمیت کا احساس دلا رہے  ہیں۔ اس شعر میں وہ دنیا کی مشکلات اور پریشانیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ ان مشکلات اور آفات کے دور میں سکون کی تلاش میں ہیں اور شاعر کو یہ سکون صرف اور صرف اپنے محبوب کی موجودگی سے ملتا ہے۔ یہ شعر شاعر کے دل کی کیفیت کو بیان کرتا ہے، جہاں وہ آفات اور مشکلات کا سامنا کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود اسے سکون ملتا ہے۔ یہ سکون اس شخص کی موجودگی کی وجہ سے ہے، جو اس کے لیے آفات کے دوران بھی چین کا باعث بنتا ہے۔ شاعر یہ ظاہر کرتا ہے کہ دنیا کی مشکلات کے باوجود، اس کا محبوب اس کے لیے راحت اور سکون کا ذریعہ ہے۔ تیری قربت کے لمحے پھول جیسے    مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں یہاں “چین کی گھڑی” سے مراد وہ لمحے ہیں جو اس شخص کے ساتھ گزارے گئے ہیں، جن میں ایک خاص سکون اور آرام ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی نے اس شعر میں انسانی جذبات کی وہ لطافت اور سکون ظاہر کیا ہے جو کسی عزیز کی موجودگی میں ملتا ہے، چاہے دنیا بھر کی مشکلات کیوں نہ ہوں۔(غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی)

شعر3۔   میری رات کا چراغ  میری نیند بھی ہے تو
مفہوم
۔   اے میرے محبوب تو میری رات کا چراغ یعنی میرے جاگنے کی وجہ بھی ہے، اور میری نیند میرا سکون بھی تو ہی ہے۔
تشریح۔  اس شہرۂ آفاق غزل غم ہے یا خوشی ہے تو کے اس شعر میں شاعر ناصر کاظمی   اپنے محبوب سے سے مخاطب ہیں اور اُسے اُس کی اہمیت کا احساس دلا رہے ہیں۔  اس شعر میں شاعر اپنی رات اور نیند کی مثال دے کر محبوب کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کا چراغ (روشنی)  اور جاگنے کی یا شب بھر بیدار رہنے کی اور نیند کی راحت صرف اس محبوب کی موجودگی میں ہی ممکن ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ محبت کے بغیر اس کی زندگی کی رات بھی اندھیری ہے، اور نیند بھی بے سکون ہے۔ شاعر اس شعر میں اپنی رات کے سکون کی حالت کو اپنی محبت سے وابستہ کرتے ہیں ۔ رات کا چراغ وہ روشنی ہے جو انہیں  اپنی محبت سے ملتی ہے ۔ یہ جاگنا محبوب کی یاد کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور ہجر اور جدائی کی کیفیت کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ اور نیند وہ سکون ہے جو اس کے محبوب کی موجودگی سے آتی ہے۔ ناصر کاظمی نے اس اشعار میں یہ بات واضح کی ہے کہ محبت کے بغیر انسان کی زندگی کی رات میں کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ اس طرح، یہ شعر ایک گہری حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ انسان کی سکونت صرف اس کی محبت میں چھپی ہوتی ہے۔ (غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی)

شعر4۔   میں خزاں کی شام ہوں          رت بہار کی ہے تو
مفہوم
۔   اے میرے محبوب ہم میں بہت فرق ہے۔ اگر تو بہار کے موسم جیسا آباد ہے تو میں خزاں کی طرح اجڑا ہوا ہوں۔
تشریح۔  اس شہرۂ آفاق غزل غم ہے یا خوشی ہے تو کے اس شعر میں شاعر ناصر کاظمی   اپنا اور اپنے محبوب کا موازنہ عاجزانہ انداز میں کر رہے ہیں۔ ہر عاشق اپنے محبوب کو بہت بڑا مقام دیتا ہےاور خود کو انتہائی پست اور گرا ہوا محسوس کرتا ہے۔ شاعر اپنی حالت کو خزاں کی شام سے تشبیہ دیتا ہے، جہاں سب کچھ ماند پڑا ہوتا ہے، لیکن اس کا محبوب بہار کی رت کی طرح ہے، جو اس کی زندگی میں خوشبو، رنگ اور زندگی کی روشنی لے آتا ہے۔ یہ شاعر کی محبت میں کمال کی شدت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو خزاں میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے، اور اس کی محبت ہی بہار کی مانند اسے زندگی دیتی ہے۔ شاعر اپنے آپ کو خزاں کی شام کی حالت میں محسوس کرتا ہے، جہاں سب کچھ سست اور پژمردہ ہوتا ہے، جیسے خزاں میں درختوں سے پتے جھڑ جاتے ہیں اور ماحول غمگین ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کا محبوب بہار کی طرح ہے، جو اس کی زندگی میں خوشی اور رونق لے آتا ہے۔ اس شعر میں ناصر کاظمی نے خزاں اور بہار کے متضاد موسموں کا استعمال کر کے ایک خوبصورت تمثیل تخلیق کی ہے، جو اس کی محبت کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ (غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی)

شعر 5۔   دوستوں کے درمیاں            وجہ دوستی ہے تو
مفہوم
۔    میرے محبوب! میرے دوستوں میں اگر محبت اور دوستی ہے ، تو وہ تیری وجہ سے ہے۔
تشریح۔  اس شہرۂ آفاق غزل غم ہے یا خوشی ہے تو کے اس شعر میں شاعر ناصر کاظمی    اپنے محبوب کو اپنے دوستوں کے درمیان دوستی کی وجہ کہتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر یہ کہتے ہیں کہ اگر دوستوں کے درمیان کوئی تعلق یا بات ہوتی ہے، تو وہ صرف اس کی محبت کی وجہ سے ہے۔ یہ شعر دوستوں کے درمیان محبت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے، جہاں دوستوں کا رشتہ اس کی محبت سے جڑا ہوتا ہے۔ ناصر کاظمی اس شعر میں دوستوں کے تعلق کو اپنے محبوب کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا کے رشتہ اور تعلقات، حتیٰ کہ دوستوں کے درمیان بھی، اس کی محبت کی وجہ سے قائم ہیں۔ اگر اس کی محبت نہ ہوتی تو یہ رشتہ بھی قائم نہ رہتا۔ شاعر نے اس شعر میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ محبت کے بغیر، دنیا میں کچھ بھی مکمل نہیں ہوتا۔ (غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی)

شعر 6۔   میری ساری عمر میں  ایک ہی کمی ہے تو
مفہوم
۔   اے میرے محبوب! اگر میری زندگی میں کوئی کمی ہے تو وہ صرف تیری ہی کمی ہے۔
تشریح۔  اس شہرۂ آفاق غزل غم ہے یا خوشی ہے تو کے اس شعر میں شاعر ناصر کاظمی   اپنی پوری زندگی میں ایک ایسی کمی کا ذکر کرتے ہیں جو ان کے لیے سب سے بڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ساری عمر میں صرف ایک ہی چیز کی کمی ہے، اور وہ اس کی محبوب اور اس کی محبت کی کمی ہے۔  شاعر اپنی ساری زندگی کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے اس میں ایک اہم چیز کی کمی ہو۔ یہ کمی اس کی محبت کی ہے، جو اس کی زندگی کو مکمل کرتی۔ انسان کی زندگی میں ایسا مقام اور ایسا وقت آتا ہے کہ انسان کے پاس دولت ، شہرت، عزت، آبرو، مال سب دنیا کی عیش و عشرت موجود ہوتی ہے، لیکن اخلاص کے ساتھ دلی محبت کرنے والے لوگوں کی کمی ہوتی ہے۔ جو اردگرد لوگ ہوتے ہیں وہ لالچی اور مطلبی ہوتے ہیں ۔ اور جس کی کمی ہوتی ہے، وہ سچی محبت کرنے والے انسان کی ، اور اس کی محبت کی کمی ہوتی ہے۔ انسان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے پھر بھی وہ سکون سے نہیں رہ پاتا۔  ناصر کاظمی نے اس شعر میں دکھایا ہے کہ محبت کے بغیر انسان کی زندگی میں کوئی سکون یا حقیقت نہیں ہوتی۔(غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی)

شعر 7۔  میں تو وہ نہیں رہا     ہاں مگر وہی ہے تو
مفہوم
۔   اے میرے محبوب، وقت گزرنے کے ساتھ میں بہت بدل گیا ہوں، مگر تو اب بھی ویسا کا ویسا ہی ہے۔
تشریح۔  اس شہرۂ آفاق غزل غم ہے یا خوشی ہے تو کے اس شعر میں شاعر ناصر کاظمی   یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اب پہلے جیسے نہیں رہے، لیکن وہ محبوب بدستور وہی ہے جو پہلے تھا۔ اس میں شاعر کا اپنے جذبات اور اپنے محبوب سے تعلق میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔   یہاں شاعر اپنا اور اپنے محبوب کا ایک مرتبہ پھر موازنہ کرتے ہوئے کہ رہے ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں  تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میں کتنا بدل گیا ہوں۔ شاید اب میں ویسی محبت نہیں کرتا۔ لیکن اے میرے محبوب! تو حقیقی محبت کی داستان ہے۔ تجھے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ محبت ہوتی کیا ہے۔ تو بالکل ویسی محبت ہی کرتا ہے جیسی کسی زمانے میں سچی محبت کیا کرتا تھا۔ ناصر کاظمی اس شعر میں بتاتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ، وہ خود بدل چکا ہے، لیکن اس کا محبوب ابھی بھی وہی ہے۔ یہ شعر ایک گہری تنہائی اور دل کی حالت کو ظاہر کرتا ہے، جہاں شاعر نے اپنے اندر تبدیلی محسوس کی ہے، لیکن محبوب میں کوئی فرق نہیں آیا۔(غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی)

شعر 8۔  ناصرؔ اس دیار میں    کتنا اجنبی ہے تو
مفہوم
۔   اے ناصر، اس بستی میں اور اس شہر میں تو کتنا اجنبی، تنہا اور اکیلا ہے۔
تشریح۔  اس شہرۂ آفاق غزل غم ہے یا خوشی ہے تو کے اس شعر میں شاعر ناصر کاظمی   اپنے آپ کو اس دیار میں اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنی تنہائی اور تنہائی کے احساس کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں تنہا اور غریب محسوس کرتے ہیں ، اور ان کی محبت جو ان کے قریب نہیں ہے، وہ اسے مزید اجنبی بناتی ہے۔  ناصر کاظمی اس شعر میں اپنی تنہائی اور دوری کا تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ دنیا میں اجنبی ہیں کیونکہ ان کی محبت ان کے قریب نہیں ہے۔ اس شعر میں اس اجنبیت کو زیادہ شدت سے بیان کیا گیا ہے کہ اس کا محبوب اگر اس کے قریب ہوتا، تو وہ اجنبی نہ ہوتا۔ یہ شعر محبت کی دوری اور انسان کی تنہائی کا گہرا تاثر پیدا کرتا ہے۔(غزل غم ہے یا خوشی ہے تو تشریح ۔ ناصر کاظمی)

We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)

اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں

اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔  تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر  معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں  سے متعلق آگاہ رہیں۔

Follow us on

 

 

Related Posts

Leave a Comment

Adblock Detected

Please support us by disabling your AdBlocker extension from your browsers for our website.