غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح
میر تقی میر کی غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ میر تقی میر کو اردو غزل گوئی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ میر تقی میر کو خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ان کی مشہور غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے ویب سائیٹ علمو۔ اردو نوٹس کے لیے اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں۔
شعر1۔ فقیرانہ آئے صدا کر چلے کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
مفہوم۔ میں فقیروں کی طرح آیا اور یہ صدا لگاتا اور دعادیتا ہوا چلا کہ “میاں خوش رہو”۔
تشریح۔ غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کے اس شعر میں شاعر میر تقی میرعاجزی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں فقیرانہ انداز میں تیرے در پر آیا اور صدا لگا کر چلا گیا۔ شاعر نے اپنے آپ کو ایک فقیر کے روپ میں پیش کیا ہے، جو محبوب کے در پر حاضر ہوتا ہے ۔ کوئی اسے بھیک دے یا نہ دے وہ صدا دیتا ہوا چلا اور دعائیں دیتا ہوا چلا جاتا ہے۔ یہاں فقیر اپنے محبوب کو خوش رہنے کی دعا دے کر واپس چلا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے تمہیں خوش رہنے کی دعا دی اور واپس چلا آیا۔ یہاں فقیرانہ انداز سے مراد عاجزی اور انکساری ہے۔ شاعر نے محبوب کی خوشی کو اپنی خوشی قرار دیا ہے اور اس کے لیے دعا کر کے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نظر میں ٹھکانہ کیا
یہ دنیا عارضی مقام ہے، یہاں آنا تو ہے پھر چاہے محبت ملے یا نہ ملے، انسان نے رخصت ہو جانا ہے۔یہ شعر محبت اور فنا کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے، جہاں شاعر اپنے محبوب کے لیے دعا کرتا ہے اور خود کو اس کی خوشی پر قربان کر دیتا ہے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر2۔ جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
مفہوم۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ تیرے بغیر زندہ نہیں رہیں گے، تو دیکھ لے ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا اور کیوں کہ تو نہیں ملا اس لیے دنیا کو چھوڑ کر جا رہے ہیں
تشریح۔غزل کے اس شعر میں شاعر میر تقی میرکہتے ہیں کہ وہ کبھی کسی سے وعدہ کیا کرتے تھے کہ ان کی زندگی اس شخص کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ لیکن اب وہ اس وعدے کو توڑ کر، اپنے راستے پر چل پڑے ہیں۔ وہ جو شخص کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ سمجھتے تھے، اب اسے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
شاعر اپنے محبوب کو کہتے ہیں کہ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ تیرے بغیر زندہ نہیں رہیں گے، اور آج ہم نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا ہے۔ تیرے بغیر یہ دنیا ہمارے لیے ایک ویرانے سے زیادہ کچھ نہیں رہی۔ ہر لمحہ، ہر سانس تیری یادوں میں گزرتا ہے، اور تیری غیر موجودگی نے ہمارے دل کو ایسا زخمی کر دیا ہے کہ اب اس دنیا میں رہنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہا۔ ہم نے تیرے ساتھ ایک عہد کیا تھا، اور آج ہم نے اس عہد کو نبھا کر دکھایا ہے۔ تیرے بغیر یہ زندگی بے معنی ہے، اور ہم نے اس بے معنی زندگی کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
غزل کے اس شعر میں شاعر میر تقی میر اپنے پرانے وعدوں اور عہدوں کو یاد کرتے ہیں، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ کسی کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، وہ اس وعدے کو توڑتے ہوئے اپنی تقدیر کے مطابق زندگی گزارنے نکل پڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس عہد کو وفا کرنے کے بجائے اس سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ اس شعر میں ایک طرف رشتہ اور عہد کی شدت اور دوسری طرف زندگی میں تبدیلی اور فراق کا دکھ ظاہر ہو رہا ہے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 3۔ شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
مفہوم۔ بڑے بڑے طبیب بھی ہمارا علاج کرنے کی کوشش کر چکے لیکن ہمیں شفا نہیں ملی کیوں کہ ہماری تقدیر میں شفا ہی موجود نہیں تھی۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں میر تقی میر کہتے ہیں کہ ہم محبت کے بیمار ہیں۔ ہمیں محبت اور محبوب کے عشق کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں اس مرض کے علاج کی اشدضرورت تھی۔ ہم نے بہت سے طبیبوں سے علاج کروایا لیکن کوئی بھی ہمارے درد کا علاج نہ کر سکا۔ نہ ہمیں ہمارا محبوب ملا، اگر وہ ملتا تو ہمیں کسی علاج کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ اور نہ ہی ہمیں کسی اور طرح سے آرام آیا، کیوں کہ محبوب کا ملنا ہماری تقدیر میں ہی موجود نہیں تھا۔
یہاں دراصل شاعر نے تقدیر اور انسان کی کوششوں کے درمیان تعلق کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری تقدیر میں شفا نہیں تھی، اس لیے ہم نے مقدور بھر علاج کیا اور چلے گئے۔ یہ شعر انسان کی محدود کوششوں اور تقدیر کے سامنے بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر نے یہاں تقدیر کو ایک طاقتور قوت کے طور پر پیش کیا ہے، جس کے سامنے انسان کی کوششیں بے اثر ہو جاتی ہیں۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 4۔ پڑے ایسے اسباب پایان کار کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے
مفہوم۔ انجام کار ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ ہم نے ناچار اپنی جان جلا کر چلے گئے۔ یہ شعر انسان کی مجبوریوں اور زندگی کے ناگزیر حالات کو ظاہر کرتا ہے۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میر تقی میر یہاں زندگی کے تکلیف دہ حالات اور اس کے سنگین اثرات کا ذکر کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حالات اتنے بگڑ گئے کہ وہ اپنے دل کی آگ کو جلا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب انسان پر غموں کا سامنا ہو، تو وہ اپنی داخلی سکون کو قربان کر کے زندگی کی راہوں میں چلتا ہے۔
شاعر میر تقی میر یہاں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ انسان کا اندرونی سکون اور خوشی کئی بار حالات اور اسباب کی بنا پر متاثر ہو جاتا ہے۔ وہ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ جب تک زندگی میں کامیابی، خوشی، یا سکون نہیں ملتا، تب تک انسان ایک اندرونی دکھ یا اضطراب کا سامنا کرتا ہے۔ اس شعر میں، وہ داخلی درد اور مایوسی کو جلا کر زندگی گزارنے کی حالت کو بیان کر رہے ہیں، جیسے ایک انسان اپنی حالت کے مطابق سکون کو قربان کر کے آگے بڑھتا ہے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 5۔ وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے
مفہوم۔ آخر وہ کون سی چیز ہے اور اس میں ایسی کیا بات ہے کہ جس نے ہمارے اندر کا احساس ما دیا ہے اور ہم نے ہر چیز سے منہ موڑ لیا ہے۔
تشریح۔غزل کے اس شعر میں میر تقی میر بے زاری اور بے چینی کی بات کر رہے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ آخر ایسی کون سی چیز میری زندگی میں آ گئی ہے کہ جس کی وجہ سے اب میرا جی اس دنیا میں نہیں لگتا۔ یہ بے زاری بے چینی اور بے قراری کیوں میرے اندر آ گئی ہے۔ کہیں مجھے محبت تو نہیں ہو گئی۔ کیوں کہ جب انسان کو عشق ہوتا ہے تو وہ دنیا کی چیزوں سے بے گانہ ہو جاتا ہے۔
شاعر یہاں ایک خاص شے کی تلاش میں ہیں جس کے لئے وہ دنیا کی ہر چیز کو چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ شعر ایک خاص شوق یا آرزو کی شدت کو ظاہر کرتا ہے، جس کے پیچھے شاعر کی گہری تڑپ اور بے قراری ہے۔
اس شعر میں کہتے ہیں کہ انسان جب کسی چیز کے پیچھے چل پڑتا ہے، تو وہ دنیا کی ہر چیز کو چھوڑ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ وہ خاص چیز کیا ہے جس کے لئے انسان اپنی زندگی کی تمام راحتیں اور لذتیں قربان کر دیتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی گہری اور فلسفیانہ بات ہے، جہاں شاعر دنیا کے فانی اور عارضی ہونے کے باوجود اس خاص چیز کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں جو حقیقتاً انہیں سکون یا تکمیل دے سکے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 6۔ کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے
مفہوم۔ میں اپنے محبوب کی جانب دیکھتا ہوں، لیکن نا امیدی سے، اور میرا محبوب مجھ سے منہ چھپا کر چلا جاتا ہے۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں میر تقی میر محبوب کے دیدار اور نا امیدی کی بات کرتے ہیں۔ شاعر اپنے محبوب کو دیکھنے کی بہت خواہش رکھتے ہیں۔ اور اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن محبوب کا دیدار نہیں ہو پاتا۔ وہ اسی لیے نا امید ہو گئے ہیں اور مایوسی کی حالت میں اپنے محبوب کو تلاش کرتے ہیں او ر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن محبوب بھی ستم ظریف ہے۔ اور جانتا ہے کہ میرا عاشق مجھ تلاش کر رہا ہے۔ اور وہ جب اپنے عاشق کے پاس سے گزرتا ہے، تو اپنا منہ چھپا کر گزرتا ہے کہ کہیں شاعر اپنے محبوب کو دیکھ نہ لے۔
اس شعر میں انسان کے جذباتی تناؤ اور مایوسی کو بیان کرتے ہیں۔ یہاں وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص مایوسی یا غم کے عالم میں ہوتا ہے، تو وہ دوسروں سے اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس شعر میں شاعر نے اس بات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ انسان اپنے غم اور ناامیدی کے وقت دوسروں کے سامنے اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، جیسے وہ کسی سے اپنا دکھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 7۔ بہت آرزو تھی گلی کی تری سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
مفہوم۔ تیری گلی میں جانے کی بہت خواہش تھی، میں وہاں چلا تو گیا۔ لیکن لہو لہان ہو کر وہاں سے نکلا ہوں۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میر تقی میر کہتے ہیں کہ میرے دل میں شدید خواہش تھی کہ میں محبوب کا دیدار کروں۔ اور اس عمل کے لیے میں محبوب کی گلی میں چلا گیا۔ اردو شاعری کی روایت میں عاشق ہمیشہ محبوب کے در پر پڑا رہتا ہے اور اس کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ سو یہاں بھی شاعر کی خواہش ہے کہ میں اپنے محبوب کے در پر چلا جاؤں اور اس کے انتظار میں اس کی گلی میں بیٹھا رہوں۔
لیکن میرے محبوب کو میرا یہ انداز پسند نہیں آیا اور اس نے مجھے یہاں سے زبردستی اٹھوانے کی کوشش کی۔ میری ضد پر مجھے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ اور یہی ہر عاشق کے ساتھ ہوتا ہے۔
اس کی گلی سے اٹھ کے ہم اپنی گلی میں آ گئے بس اک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی
شاعر یہاں اپنے دل کی آرزو کو بیان کر رہے ہیں کہ وہ کسی کی گلی میں جانے کی خواہش رکھتے تھے۔ لیکن اب وہ اس گلی کو خون میں ڈوب کر، یا اپنی قربانی دے کر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ میر تقی میر اس شعر میں زندگی کی سختیوں اور دکھوں کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں کسی شخص کی گلی میں جانے کی بہت آرزو تھی، لیکن اس آرزو کے پیچھے اتنی تکالیف اور قربانیاں تھیں کہ وہ اپنی اس آرزو کو خون میں ڈوب کر چھوڑ گئے ہیں۔ یہ ایک علامتی بیان ہے کہ انسان جب اپنی چاہت اور خواہشات کی تکمیل کی کوشش کرتا ہے تو راستے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرتا ہے، اور کبھی کبھی وہ اپنی آرزو کو قربان کر دیتا ہے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 8۔ دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
مفہوم۔ جب سے مجھے محبوب نظر آیا ہے، تب سے میں دیوانہ اور بے خود ہو گیا ہوں، میں خود سے بھی جدا اور بے گانہ ہو گیا ہوں۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میری تقی میر کہتے ہیں کہ میرا محبوب بہت بڑا ستم گر ہے، اس نے مجھے دیوانہ بنا دیا ہے۔ میرا محبوب اس قدر حسین و جمیل ہے کہ اسے دیکھتے ہی میں دیوانہ ہو گیا۔ اس کے حسن میں ایسا غرق ہوا ، ایسا ڈوبا ہوں کہ اس کے اثر سے باہر نہیں آ سکا۔ جب سے مجھے میرا محبوب نظر آیا ہے، تب سے میں بے خود، بے گانہ اور دیوانہ ہو گیا ہوں۔ میرے محبوب نے مجھے کبھی وصال کے موقع تو نہیں دیا، لیکن ستم یہ کیا کہ مجھ سے میرا اپنا وصال بھی چھین لیا۔ مجھے اب اپنا ہوش بھی نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور کہاں ہوں۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر9۔ جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی حق بندگی ہم ادا کر چلے
مفہوم۔ میں نے تمام عمر سجدے کی حالت میں اور بندگی میں گزار دی، اور اسی حالت میں اس دنیا سے چل دیا۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میری تقی میر اپنی زندگی اور اللہ کے حق بندگی ادا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے تمام عمر سجدے کی حالت میں اور بندگی میں گزار دی، اور اسی حالت میں اس دنیا سے چل دیا۔ یہ جملہ انسان کی عاجزی، عبادت، اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں ایک گہرا روحانی پیغام پوشیدہ ہے، جو انسان کی زندگی کے مقصد اور اس کے انجام کو بیان کرتا ہے۔
سجدہ، جو عبادت کی انتہائی عاجزانہ حالت ہے، انسان کے خدا کے سامنے جھکنے اور اپنی بے بسی کا اعتراف کرنے کی علامت ہے۔ یہ جملہ بتاتا ہے کہ انسان نے اپنی پوری زندگی خدا کی بندگی میں گزار دی، اور اسی عاجزی اور وفاداری کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا۔ یہاں سجدے سے مراد صرف جسمانی جھکنا نہیں، بلکہ دل و دماغ کا خدا کے سامنے جھکنا اور اس کی رضا کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا ہے۔
اس شعر میں زندگی کے اختتام کا ایک پرسکون اور پرامن تصور پیش کیا گیا ہے۔ انسان نے اپنی زندگی کو خدا کی عبادت اور بندگی میں گزارا، اور اسی حالت میں اس دنیا سے چل دیا۔ یہ ایک مثالی زندگی کا نمونہ ہے، جہاں انسان اپنے خالق کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اس کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔
یہ شعر انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد خدا کی بندگی اور عبادت ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو خدا کے سامنے عاجزی اور وفاداری کے ساتھ گزارے، اور اسی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو۔ یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو حقیقی کامیابی اور سکون کی طرف لے جاتا ہے۔
اس شعر میں ایک گہرا فلسفہ پوشیدہ ہے، جو انسان کو زندگی کے اختتام پر اطمینان اور سکون فراہم کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی کو خدا کی بندگی میں گزارے، تو اس کا انجام بھی پر سکون اور پرامن ہوگا۔ یہی وہ حقیقی کامیابی ہے، جس کی ہر انسان کو تلاش ہوتی ہے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 10۔ پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
مفہوم ۔ میں نے اپنے محبوب سے اتنی محبت کی ہے کہ میری محبوت عبادت کی طرح بن گئی ہے۔ سب میرے محبوب کو میرا خدا یا میرا صنم سمجھتے ہیں ۔
تشریح۔ ۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میری تقی میر اپنے محبوب کی محبت اور اس محبت کو عشق کے درجے پر پہنچنے کو بیان کرتے ہیں۔اس شعر میں محبت کی انتہا اور عبادت کے جذبے کے درمیان ایک گہرا رشتہ ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس نے اپنے محبوب سے اتنی شدید محبت کی ہے کہ یہ محبت عبادت کی مانند ہو گئی ہے۔ یہاں محبت کو عبادت کے برابر قرار دیا گیا ہے، جو بتاتا ہے کہ شاعر کے لیے محبوب کی محبت ہی اس کی زندگی کا مرکز اور مقصد بن گئی ہے۔ محبت کا یہ جذبہ اس قدر بلند ہو گیا ہے کہ وہ دنیاوی محبت سے بالاتر ہو کر روحانی عبادت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
شاعر مزید کہتا ہے کہ اس کی محبت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اس کے محبوب کو اس کا خدا یا صنم سمجھنے لگے ہیں۔ یہاں خدا یا صنم کا تصور محبوب کی عظمت اور شاعر کی محبت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کے لیے محبوب ہی وہ ہستی ہے جس کے سامنے وہ سر جھکاتا ہے، جس کی پرستش کرتا ہے، اور جس کے بغیر اس کی زندگی بے معنی ہے۔ یہ جملہ محبت کے جذبے کی انتہا کو بیان کرتا ہے، جہاں محبوب کو خدا یا صنم کے برابر قرار دے کر اس کی عظمت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
یہ شعر محبت کی طاقت اور اس کے روحانی پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ شاعر نے محبت کو عبادت کے برابر قرار دے کر یہ بتایا ہے کہ محبت کا جذبہ انسان کو کس طرح ایک اعلیٰ مقام تک لے جا سکتا ہے، جہاں وہ اپنے محبوب کو ہی اپنا معبود سمجھنے لگتا ہے۔ یہ محبت کی انتہا ہے، جہاں انسان اپنے محبوب کے سامنے سر جھکاتا ہے اور اس کی پرستش کرتا ہے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 11۔ جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے
مفہوم۔ جس طرح پھولوں سے رنگ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں اور پھولوں کو موت آ جاتی ہے، اسی طرح ہم بھی اس باغ (دنیا )میں زندگی گزار کر جا رہے ہیں۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میری تقی میر دنیا میں زندگی کے ختم ہو جانے کو بیان کر رہے ہیں۔ یہ شعر زندگی کی فانی ہونے اور موت کے ناگزیر ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاعر نے پھولوں کی مثال دے کر یہ بتایا ہے کہ جس طرح پھولوں کی رنگت آہستہ آہستہ ماند پڑ جاتی ہے اور وہ مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں، اسی طرح انسان بھی اس دنیا کے باغ میں ایک محدود وقت گزار کر ختم ہو جاتا ہے۔ پھول، جو خوبصورتی اور تازگی کی علامت ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ اپنی چمک کھو دیتے ہیں اور مرجھا جاتے ہیں۔ یہی حال انسان کا بھی ہے، جو اپنی جوانی اور توانائی کے دنوں میں خوبصورت اور تروتازہ نظر آتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بوڑھا ہو جاتا ہے اور آخرکار موت اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
شاعر نے دنیا کو ایک باغ سے تشبیہ دی ہے، جہاں انسان پھولوں کی مانند ایک عارضی مہمان ہے۔ یہ باغ (دنیا) خوبصورت اور رنگین ہے، لیکن اس کی ہر چیز عارضی ہے۔ انسان بھی اس باغ میں ایک پھول کی مانند ہے، جو کچھ وقت تک اپنی خوشبو اور رنگ بکھیرتا ہے، لیکن آخرکار مرجھا جاتا ہے۔ یہ جملہ زندگی کی بے ثباتی اور موت کے حتمی ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز عارضی ہے اور انسان کو اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنا چاہیے۔
یہ تشریح انسان کو زندگی کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے اور اسے یاد دلاتی ہے کہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے، اور انسان کو اپنی زندگی کو بامقصد بنانا چاہیے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 12۔ نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
مفہوم۔ شکر ہے مجھے دوستوں کے دکھ برادشت نہیں کرنے پڑے، بلکہ دوستوں سے پہلے میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
تشریح ۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میری تقی دنیا سے رخصت ہونے کا ذکر اور دوستوں کی جدائی کے داغ کو برداشت کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کے دکھوں اور زندگی کے تجربات کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ اس بات پر شکر گزار ہے کہ اسے اپنے دوستوں کے دکھوں کو برداشت نہیں کرنا پڑا، بلکہ وہ خود ہی دوستوں سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس جملے میں شاعر نے اپنے دکھوں اور زندگی کے تلخ تجربات کو بیان کیا ہے، جو اسے دوستوں کے دکھوں کو دیکھنے سے بچا لیا۔
شاعر کے لیے دوستوں کے دکھوں کو دیکھنا ایک بہت بڑا امتحان ہوتا، کیونکہ دوستوں کا غم انسان کے اپنے غم سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ اس بات پر شکر گزار ہے کہ اسے اپنے دوستوں کے دکھوں کو برداشت نہیں کرنا پڑا، بلکہ وہ خود ہی دوستوں سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ جملہ شاعر کی حساس طبیعت اور دوستوں کے ساتھ گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
شاعر نے اپنے جملے میں ایک گہرا فلسفہ بیان کیا ہے، جو انسان کو زندگی کے دکھوں اور موت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ اس بات پر شکر گزار ہے کہ اسے اپنے دوستوں کے دکھوں کو برداشت نہیں کرنا پڑا، بلکہ وہ خود ہی دوستوں سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ جملہ شاعر کی زندگی کے تجربات اور اس کے دکھوں کو ظاہر کرتا ہے، جو اسے دوستوں کے دکھوں کو دیکھنے سے بچا لیا۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 13۔ گئی عمر در بند فکر غزل سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
مفہوم۔میری زندگی غزل کہنے اور شعر گوئی میں گزر گئی، اور میں نے اپنی کوششوں سے اس فن کو کمال تک پہنچا دیا۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میری تقی اپنی زندگی اور فنِ غزل گوئی کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ اس شعر کے مطابق زندگی کا مقصد ہر انسان کے لیے مختلف ہوتا ہے اور یہ مقصد انسان کی شخصیت، خواہشات اور اہداف کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ اپنی زندگی کو سادہ طریقے سے گزارنا چاہتے ہیں جبکہ کچھ اپنی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے ذریعے دنیا میں ایک نشان چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غزل کہنا اور شعر گوئی اس طرح کا ایک فن ہے جس میں شاعری کے ذریعے جذبات، خیالات اور تجربات کو خوبصورت انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔
جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس کی زندگی غزل کہنے اور شعر گوئی میں گزر گئی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت اس فن کے ساتھ گزارا ہے۔ غزل ایک ایسا ادبی فن ہے جو نہ صرف زبان کی مہارت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ شاعر کے اندر کی گہرائی، احساسات اور دل کی کیفیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اس کا ہر مصرعہ ایک دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی آواز ہوتا ہے جو کسی نہ کسی احساس کو بیان کرتا ہے۔
جب شاعر اپنی کوششوں سے اس فن کو کمال تک پہنچاتا ہے، تو یہ اس کی محنت، لگن اور تخلیقی صلاحیتوں کی دلیل ہے۔ غزلوں کی تخلیق میں جذبات کی شدت، خوبصورت زبان اور ایک مخصوص روایتی انداز شامل ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے تجربات، محبت، درد، خوشی، غم، اور دیگر جذبات کو خوبصورتی سے بیان کرتا ہے۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
شعر 14۔ کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
مفہوم۔ اگر کسی نے پوچھا کہ تم نے اس دنیا میں آ کر اپنا وقت کیسے گزارا اور زندگی میں کیا کیا؟، تو میرے پاس کیا جواب ہو گا۔
تشریح۔ غزل کے اس شعر میں شاعر میری تقی دنیا میں گزرنے والی زندگی کا احوال بیان کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب میری زندگی گزر گئی اور میں موت کے قریب پہنچ گیا ہوں۔ میری زندگی ختم ہونے والی ہے اور مجھ سے ضرور سوال و جواب ہو گا کہ تم نے زندگی میں کیا کام کیے۔ اگر کسی نے مجھ سے سوال کیا کہ تم نے اس دنیا میں آ کر اپنا وقت کیسے گزارا اور زندگی میں کیا کیا، تو میرے جواب میں یہی ہو گا کہ میں نے اس دنیا میں آ کر اپنی زندگی کو تلاش کیا، اپنے جذبات، خیالات اور تجربات کو سمجھا، اور انہیں الفاظ کی شکل میں ڈھالا۔ میں نے اپنے اندر کی آواز کو سننے کی کوشش کی اور اس کی ترجمانی کرنے کی جستجو کی۔
زندگی کی حقیقتیں، خوشیاں اور غم، ہر ایک لمحہ میرے لیے ایک نیا سبق بنے۔ میں نے وقت کو بے وقوفی میں ضائع نہیں کیا، بلکہ ہر دن کو ایک موقع سمجھا، جس میں کچھ نیا سیکھ سکوں، کچھ نیا تخلیق کر سکوں۔ زندگی کے مختلف رنگوں میں اپنے احساسات کو شعر کی صورت میں بیان کیا، اور ان اشعار کے ذریعے دنیا کو اپنی حقیقت کا شعور دیا۔
ہر ملاقات، ہر تجربہ، ہر دکھ اور ہر خوشی میری تخلیقی صلاحیت کو بڑھانے کا ذریعہ بنی۔ میں نے اپنے وقت کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا، جو کہ لوگوں تک اپنے خیالات، احساسات اور تجربات پہنچانا تھا۔ میری زندگی کا مقصد محض دنیا میں نام کمانا نہیں تھا، بلکہ اپنی اصل حقیقت کو دریافت کرنا اور اس حقیقت کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے دنیا تک پہنچانا تھا۔ لہٰذا، میں نے اپنی زندگی کو بامقصد گزارا، جہاں ہر لمحہ میرے لیے ایک تخلیقی عمل اور خود شناسی کا سفر تھا۔(غزل فقیرانہ آئے صدا کر چلے کی تشریح)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا
اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔
ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔
Follow us on