آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” تنہائی” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر کا نام فیض احمد فیض ہے ۔
مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔
مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔
نظم ” تنہائی” کا مرکزی خیال:
یہ نظم انتظار کی ناکامی، مایوسی، اور تنہائی کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ شاعر کسی محبوب، مسیحا، یا امید کی کرن کا شدت سے منتظر تھا، مگر وہ نہیں آیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، امیدیں دم توڑتی جاتی ہیں، رات گزر چکی ہے، چراغ بجھنے لگے ہیں، اور راستے سنسان ہو چکے ہیں۔
نظم اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ زندگی میں کچھ انتظار کبھی پورے نہیں ہوتے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ماضی کے نشانات بھی مٹ جاتے ہیں۔ آخر میں شاعر حقیقت کو قبول کرتے ہوئے کہتا ہے کہ روشنیوں کو بجھا دیا جائے اور دروازے بند کر دیے جائیں، کیونکہ اب کسی کے آنے کی امید نہیں رہی۔
یہ نظم عشق کی محرومی، انقلاب کی نا آسودگی، اور تنہائی کے احساس کی ایک خوبصورت اور اداس تصویر پیش کرتی ہے، جو فیض کی شاعری کا خاصہ ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” تنہائی” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے جس کے شاعر فیض احمد فیض ہیں۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Post Views: 4