نظم ” صبح آزادی” کا خلاصہ

by Aamir
0 comments

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” صبح آزادی” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

خلاصہ کیا ہوتا ؟

 خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔

اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔

 : نظم “صبح آزادی” کا خلاصہ

فیض احمد فیض کی مشہور نظم “صبح آزادی” 14 اگست 1947 کی آزادی کے بعد لکھی گئی، جس میں شاعر نے آزادی کی حقیقت اور اس کے خواب و تعبیر کے درمیان موجود تضاد کو بیان کیا ہے۔ یہ نظم آزادی کے جشن کے بجائے اس کے ادھورے پن اور عوام کی محرومیوں پر روشنی ڈالتی ہے۔

شاعر نظم کے آغاز میں “یہ داغ داغ اجالا

اجالا

اجالا  : روشنی

” href=”https://shamivoice.pk/glossary/%d8%a7%d8%ac%d8%a7%d9%84%d8%a7/”>اجالا، یہ شب گزیدہ سحر” جیسے الفاظ کے ذریعے آزادی کی خوشی کو ایک دھندلی اور زخم خوردہ صبح سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو آزادی ملی، وہ مکمل آزادی نہیں بلکہ ایک ایسی صبح ہے جو رات کی تاریکی کا اثر لیے ہوئے ہے۔

فیض اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ جن خوابوں اور قربانیوں کی بدولت یہ آزادی حاصل ہوئی، وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوئے۔ غلامی کا خاتمہ تو ہوا، مگر استحصال، ناانصافی، اور طبقاتی فرق اب بھی باقی ہے۔ وہ آزادی کے اس ادھورے پن پر افسوس کرتے ہوئے عوام کو یاد دلاتے ہیں کہ یہ سفر ختم نہیں ہوا، بلکہ اصل آزادی کے لیے مزید جدو جہد کی ضرورت ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” صبح آزادی” اگست 47 کے خلاصے  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ

Post Views: 8

Related Posts

Leave a Comment

Adblock Detected

Please support us by disabling your AdBlocker extension from your browsers for our website.