آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” صبح آزادی” اگست 47 کے فکری و فنی جائزہ کے بارے میں پڑھیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ شاعر کا تعارف بھی پیش کریں گے ۔
: فیض احمد فیض کا تعارف
اقبال اور غالب کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر
فیض احمد فیض کا شمار ان صاحب طرز ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے قلم اور شاعری کے ذریعے اردو ادب کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے-
وہ محبوب کی محبت سے لے کر زلف سیاہ اور ہجر و فراق کے تمام ادوار کو خوب صورت طریقے سے ادا کرنے میں مکمل مہارت رکھتے تھے، وہ کہنہ مشق شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اسلوب افسانہ نگار بھی تھے-
فیض ۱۳ ؍فروری؍ ۱۹۱۱ ء کو کالا قادر، ضلع نارووال، پنجاب برطانوی ہند میں سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد سلطان محمد خان علم دوست شخص تھے، آپ پیشے سے وکیل تھے، آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا-
۱۹۲۱ ء میں آپ نے سکاچ مشن اسکول میں داخلہ لیا اور میٹرک کا امتحان پاس کیا، میٹرک کے بعد ایف اے کی تعلیم مرے کالج سیالکوٹ میں مکمل کی-
آپ کو علامہ اقبال کے استاد میر مولوی شمس الحق سے بھی شرف تلمذ حاصل ہے ۔
فیض نے ۱۹۴۱ء میں برطانوی خاتون ایلس جارج سے شادی کی، شیخ محمد عبد اللہ نے سری نگر میں آپ کا نکاح پڑھایا، فیض کی طرح ایلس بھی شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں، اور ان کی شاعری اور شخصیت سے متاثر تھیں-
۱۹۴۲ ء میں فیض نے کیپٹن کی حیثیت سے فوج میں شمولیت اختیار کی، ۱۹۴۳ ء میں میجر کے منصب پر فائز ہوئے، بعد ازاں ۱۹۴۴ ء میں آپ کو میجر سے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی.
۱۹۴۷ ء میں آپ پہلی کشمیر جنگ کے بعد فوج سے مستعفی ہوکر لاہور آ گئے- ۱۹۴۷ میں آپ نے پاکستان ٹائمز کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی-
فیض ایک متحرک اور فعال شخص تھے، انھوں نے غربت اور بھوک مری، بے روزگاری اور ظلم و استبداد کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی-
فیض ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر اردو کو متعارف کروایا اور انھیں کی کاوشوں سے اردو شاعری کمال کو پہنچی، فیض نے واضح کر دیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہوتی، بلکہ ہر دور اور ہر عصر کے لیے ہوتی ہے، انھوں نے اردو ادب میں ’’نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، شام شہر یاراں، میزان، سر وادیِ سینا اور متاع لوح و قلم‘‘ جیسے نظم و نثر کے کئی سارے خوب صورت ودلکش مجموعے یاد گار چھوڑے ہیں-
آپ کا وصال ۲۰ نومبر ۱۹۸۴ ء کو لاہور میں ہوا، اور وہیں گلبرگ کے قبرستان میں مدفون ہوئے- حکومت پاکستان نے آپ کو آپ کے وصال کے بعد نشان امتیاز
امتیاز
امتیاز : فرق
” href=”https://shamivoice.pk/glossary/%d8%a7%d9%85%d8%aa%db%8c%d8%a7%d8%b2/”>امتیاز کا اعزاز عطا کیا ۔
فیض کی شعری مہارت کے نمونے:
فیض! نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے
اپنا کیا، کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــ
وہ بات، سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــ
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
از
فیض احمد فیض
: دلچسپ معلومات
یہ مقبول ترین نظم نقش فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم ہے اور اس لحاظ سے خاص ہے کہ نقش فریادی ایک ایسی کتاب تسلیم کی گئی ہے جس نے فیض احمد فیض کی ادبی شناخت کو ایک غیر معمولی پختگی کی سمت مائل کیا- ان کی شاعری میں جو تغزل اور احتجاج کا سنگم نظر آتا ہے اس کا آغاز اسی نظم سے ہوا – اس حصے کے آغاز میں فیض نے نظامی کا یہ حوالہ بھی دیا ہے “دل بفروختم جان خریدم” (میں نے دل بیچ دیا ہے اور روح خرید لی ہے)
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
: نظم “صبح آزادی” کا فکری و فنی جائزہ
فیض احمد فیض کی نظم “صبح آزادی” برصغیر کی آزادی کے پس منظر میں لکھی گئی ایک شاہکار نظم ہے، جو آزادی کے نامکمل پہلوؤں، عوام کی محرومیوں اور حقیقی انقلاب کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس نظم میں فیض نے آزادی کو ایک ایسی صبح سے تشبیہ دی ہے جو مکمل روشنی کے بجائے رات کے سائے میں لپٹی ہوئی ہے۔
: نظم کا فکری جائزہ
1. آزادی کا نامکمل تصور:
فیض آزادی کو محض سیاسی تبدیلی نہیں سمجھتے بلکہ سماجی اور معاشی برابری کو بھی اس کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔ وہ اس نظم میں اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی عوام کی حالت نہیں بدلی، اور وہی طبقاتی تفریق
تفریق
تفریق : علیحدگی ، بڑے عدد میں سے چھوٹا عدد نکالنا
” href=”https://shamivoice.pk/glossary/%d8%aa%d9%81%d8%b1%db%8c%d9%82/”>تفریق، غربت اور استحصال قائم ہے۔
2. مایوسی اور امید کا امتزاج:
نظم میں شاعر نے آزادی کے ادھورے خواب پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ عوام کو حقیقی انقلاب اور مکمل آزادی کے لیے بیدار ہونے کا پیغام بھی دیتے ہیں۔ یہ نظم صرف مایوسی کا نوحہ نہیں بلکہ جدو جہد کا اعلان بھی ہے۔
3. علامتی اظہار:
فیض نے نظم میں “داغ داغ اجالا
اجالا
اجالا : روشنی
” href=”https://shamivoice.pk/glossary/%d8%a7%d8%ac%d8%a7%d9%84%d8%a7/”>اجالا” اور “یہ شب گزیدہ سحر” جیسی علامتوں کا استعمال کیا ہے، جو اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ جو آزادی حاصل ہوئی، وہ مکمل اور روشن صبح کی طرح نہیں بلکہ ایک ایسی روشنی ہے جو رات کے سائے سے داغدار ہے۔
4. عوامی جذبات کی ترجمانی:
یہ نظم عام انسان کے جذبات کی آئینہ دار ہے۔ شاعر نے ان لوگوں کی تکالیف کو نمایاں کیا ہے جنہوں نے آزادی کے خواب دیکھے تھے، مگر ان کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔
: نظم کا فنی جائزہ
1. صنفِ نظم:
یہ ایک نظمِ آزاد ہے، جس میں روایتی اوزان اور قافیوں کی قید سے نکل کر جدید شاعری کی روایت کو اپنایا گیا ہے۔
2. اسلوب:
فیض کا اسلوب سادہ، موثر اور جذباتی ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ کی چاشنی، گہرائی اور معنویت موجود ہوتی ہے۔ اس نظم میں بھی ان کے الفاظ سیدھے دل پر اثر کرتے ہیں۔
3. علامت نگاری:
فیض کے کلام کی سب سے نمایاں خصوصیت علامت نگاری ہے۔ اس نظم میں:
“داغ داغ اجالا
اجالا
اجالا : روشنی
” href=”https://shamivoice.pk/glossary/%d8%a7%d8%ac%d8%a7%d9%84%d8%a7/”>اجالا” = آزادی کے ادھورے پن کی علامت
“یہ شب گزیدہ سحر” = غلامی کے اثرات سے آزاد نہ ہونے والی صبح
“منزل” = حقیقی آزادی اور انقلاب کا استعارہ
4. اندازِ بیان:
نظم میں ترکیبی انداز اپنایا گیا ہے، جہاں سوالیہ لہجہ، استعارات اور تکرار
تکرار
تکرار : بار بار ، جھگڑا
” href=”https://shamivoice.pk/glossary/%d8%aa%da%a9%d8%b1%d8%a7%d8%b1/”>تکرار جیسے فنی حربے قاری پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
5. موسیقیت:
اگرچہ نظم آزاد ہے، مگر فیض کے الفاظ میں قدرتی آہنگ اور روانی پائی جاتی ہے، جو نظم کو نثر کے بجائے شاعری کا ایک بہترین نمونہ بناتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” صبح آزادی” اگست 47 کے فکری و فنی جائزہ اور فیض احمد فیض کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Post Views: 4