پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح
اس آرٹیکل میں اردونصاب میں شامل پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔ پروین فنا سید کی اس غزل میں شاعر نے زندگی کے مختلف پہلوؤں، تقدیر، اور خودی کے بارے میں گہرے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ہر شعر میں ایک نیا پیغام ہے جس میں شاعر نے اپنی جدوجہد، مشکلات، اور ان کے حل کی تلاش کو مختلف اشعار میں بیان کیا ہے۔ آئیے ان اشعار کی تفصیل سے تشریح کرتے ہیں۔ اس غزل میں پروین فنا سید نے زندگی کی حقیقتوں، تقدیر، محنت، مشکلات اور روحانیت کو گہرائی سے بیان کیا ہے، اور یہ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد تقدیر کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے ویب سائیٹ علمو۔ اردو نوٹس کے لیے اور جماعت نہم کے اردو نوٹس کے لیے یہاں کلک کریں۔ (پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح )
شعر 1۔ کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا ڈوب جاتا بھی تو موجوں نے ابھارا ہوتا
مفہوم۔ کاش میں نے مشکلات کا سامنا کیا ہوتا، کاش طوفان میں اپنی کشتی کو لے جاتا۔ اگر ڈوب بھی جاتاتو کسی لہریں مجھے واپس باہر پھینک دیتیں۔
تشریح۔ غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کے اس شعر میں شاعرہ پروین فنا سید اپنی زندگی کے بارے میں گہرے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔ “کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا” کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان نے اپنی زندگی کے مشکلات یا آزمائشوں کو گلے لگایا ہوتا تو شاید اس میں کچھ نیا حاصل کر لیتا۔ یہاں ایک خواہش کا اظہار موجود ہے۔ وقت گزرنے کے بعد ہی انسان کو احساس ہوتا ہے کہ جو کچھ اس نے کیا اسے مزید بہتر کس طرح کیا جا سکتا تھا۔ یہاں طوفان کا تصور زندگی کی مشکلات، رکاوٹوں یا چیلنجز کو پیش کرتا ہے۔
شاعرہ پروین فنا سید کہتی ہیں کہ انسان کو چاہیے کہ وہ زندگی کی مشکلات کا سامنا کرے۔ ان مشکلات کا مقابلے کے۔ ان سے منہ نہ پھیرے اور ان سے دور نہ بھاگے۔ سامنا کرے گا تو ہی ان مشکلات کا حل نکلے گا۔ اگر آدمی ان مشکلات کے سمندر میں ڈوب بھی جاتا ، تو زندگی کی ان مشکلوں نے اسے کچھ نہ کچھ سیکھنے اور ابھارنے کا موقع فراہم کیا ہوتا۔ اس میں زندگی کے مصائب کو پذیرائی دینے کا پیغام ہے کہ مشکلات میں چھپی ہوئی طاقت کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔ (پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح )
شعر 2۔ ہم تو ساحل کا تصور بھی مٹا سکتے تھے لب ساحل سے جو ہلکا سا اشارا ہوتا
مفہوم۔ اگر ساحل کی اجازت ہوتی ، تو ہم اس کا وجود کیا، اس کا تو تصور بھی مٹا دیتے، کسی کو پتا ہی نہ چلتا کہ کبھی یہاں ساحل نا م کی کوئی چیز تھی یا نہیں۔
تشریح۔ غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کے اس شعر میں شاعرہ پروین فنا سید اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ انسان کی طاقت اس قدر ہے کہ وہ خود کو اپنے ماحول اور حالات سے الگ کر سکتا ہے۔ “ہم تو ساحل کا تصور بھی مٹا سکتے تھے” کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی اور جذباتی طور پر ایک نیا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جو کبھی اپنے دکھوں اور پریشانیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا اور وہ اشرف المخلوقات ہے۔ اس کے پاس بہت کچھ کرنے کی طاقت ہے جو باقی مخلوقات کے پاس نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ ساحل اردو غزل کی روایت میں منزل کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو غزل میں انسان کی منزل اس کا محبوب ہوتا ہے۔ اور یہ محبوب ہمیشہ ظالم ، ستم گر، صنم کے روپ میں سامنے آتا ہے، جو اپنے عاشق کو اپنے پاس بھی نہیں آنے دیتا۔ تو یہاں شاعرہ کہتی ہیں کہ اگر ساحل، یعنی محبوب کی طرف سے اجازت ہوتی، تو ہم اس کے متعلق قائم تصور کہ وہ ستم گر ہے ، اور اس سے وصال نہیں ہوتا، یہ تصور ختم کر سکتے تھے۔ اور اس کے قریب ہو جاتے۔ اس شعر میں در اصل انسان کے اختیار اورجذبہ یقین کی طرف اشارہ موجود ہے۔ (پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح )
شعر 3۔ تم ہی واقف نہ تھے آداب جفا سے ورنہ ہم نے ہر ظلم کو ہنس ہنس کے سہارا ہوتا
مفہوم۔ تم محبت اور اس کے آداب سے واقف نہیں تھے۔ ہم واقف تھے اس لیے ہم نے عشق کے میدان میں ہر ظلم بخوشی سہہ لیا۔
تشریح۔ غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کے اس شعر میں شاعرہ پروین فنا سید محبت اور عشق کے میدان کے تقاضے اور آداب کا تذکرہ کرتی ہیں۔ شاعرہ پروین فنا سید کی غزل میں، “تم محبت اور اس کے آداب سے واقف نہیں تھے۔ ہم واقف تھے اس لیے ہم نے عشق کے میدان میں ہر ظلم بخوشی سہہ لیا” میں محبت اور عشق کے پیچیدہ اور گہرے معنی بیان کیے گئے ہیں۔ یہ شعر دراصل محبت کے حقیقی مفہوم اور اس کے تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور اس میں عشق کی حقیقت کو نہ سمجھ پانے والوں کے لیے ایک پیغام ہے۔
شاعرہ اس شعر میں یہ بتاتی ہیں کہ جو لوگ محبت اور عشق کے حقیقی آداب سے واقف نہیں ہوتے، وہ اس میں آنے والے دکھوں اور تکالیف کو صحیح طور پر نہیں سمجھ پاتے۔ “محبت اور اس کے آداب سے واقف نہیں تھے” میں شاعرہ یہ بیان کر رہی ہیں کہ محبت محض خوشی یا رومانی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس میں قربانی، صبر، اور خود کو مٹانے کی قوت ہوتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور تکلیف دہ عمل بھی ہو سکتا ہے، جسے صرف وہی لوگ صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں جو اس کے آداب سے واقف ہوں۔
دوسری طرف، شاعرہ کا کہنا ہے کہ وہ محبت کے اس درد اور آزمائش کو جانتی تھیں، اور اسی لیے انہوں نے “عشق کے میدان میں ہر ظلم بخوشی سہہ لیا”۔ یہاں “ہر ظلم بخوشی سہہ لیا” میں یہ پیغام ہے کہ عشق میں انسان اپنے جذبات اور خواہشات کو مٹاتا ہے اور دوسروں کے لیے قربانیاں دیتا ہے، چاہے وہ تکلیف دہ ہوں۔ عشق کے میدان میں انسان کو صبر، جدوجہد اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جسے عاشق بخوشی قبول کرتا ہے کیونکہ اسے اپنی محبت کی گہرائی اور سچائی کا یقین ہوتا ہے۔
اس شعر میں پروین فنا سید محبت کی حقیقت اور اس کے آداب کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں اور یہ سکھاتی ہیں کہ محبت ایک بلند جذبہ ہے جس میں انسان اپنی انا کو قربان کر کے، درد اور تکلیف کو محبت کے راستے میں خوشی سے سہتا ہے۔ (پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح)
شعر 4۔ غم تو خیر اپنا مقدر ہے سو اس کا کیا ذکر زہر بھی ہم کو بصد شوق گوارا ہوتا
مفہوم۔ میری زندگی میں تو غموں کی بھر مار ہے، اور غم میرا مقدر ہیں۔ لیکن اگر تم نے مجھے زہر پینے کا بھی کہا ہوتا تو عشق کی خاطر میں اس سے بھی دریغ نہ کرتا۔
تشریح۔ غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کے اس شعر میں شاعرہ پروین فنا سید عشق کے میدان میں دی جانے والی قربانیوں کا تذکرہ کر رہی ہیں۔ شاعرہ پروین فنا سید کی غزل کے اس شعر میں “میری زندگی میں تو غموں کی بھر مار ہے، اور غم میرا مقدر ہیں۔ لیکن اگر تم نے مجھے زہر پینے کا بھی کہا ہوتا تو عشق کی خاطر میں اس سے بھی دریغ نہ کرتا” کا شعر عشق کی قربانیوں اور اس میں شامل دکھوں کو بیان کرتا ہے۔ یہ شعر عشق کے لیے دی جانے والی بے مثال قربانیوں کو اجاگر کرتا ہے، اور اس میں شاعرہ اپنے دل کی گہرائیوں میں چھپے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔
شاعرہ اپنی زندگی میں آنے والے غموں کو اپنے مقدر کا حصہ سمجھتی ہیں اور ان غموں کو اپنی تقدیر کی حقیقت کے طور پر قبول کرتی ہیں۔ “غموں کی بھر مار ہے، اور غم میرا مقدر ہیں” میں وہ اس بات کو تسلیم کر رہی ہیں کہ ان کی زندگی میں دکھ اور تکلیفیں ایک معمول ہیں، اور ان کا سامنا کرنا ان کی تقدیر کا حصہ ہے۔ اس میں ایک گہرا پیغام ہے کہ زندگی میں مشکلات اور غموں کا آنا کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ ہر انسان کی تقدیر کا حصہ ہیں۔
دوسری طرف، شاعرہ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ اگر عشق میں کوئی اتنی بڑی قربانی بھی پیش کی جاتی، جیسے زہر پینا، تو وہ اس سے بھی دریغ نہ کرتیں۔ “اگر تم نے مجھے زہر پینے کا بھی کہا ہوتا” میں شاعرہ نے عشق کی محبت میں دی جانے والی قربانیوں کو پیش کیا ہے۔ وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ محبت کی حقیقی شدت میں انسان ہر تکلیف اور اذیت کو محبت کی خاطر خوشی سے گوارا کرتا ہے۔ اس میں ایک نہ ختم ہونے والی لگن اور وفاداری کی تصویر ہے، جہاں عاشق اپنی زندگی کی تمام تکالیف کو بھی محبت کے راستے میں خوشی سے برداشت کرتا ہے۔
شاعرہ کا یہ شعر دراصل عشق کی شدت اور اس میں شامل قربانیوں کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، جو صرف محبت کے حقیقی معنی سمجھنے والوں ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ ان کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عشق میں اپنی محبت کی خاطر ہر تکلیف، ہر دکھ، اور ہر آزمائش کو خوشی سے قبول کیا جا سکتا ہے۔ (پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح)
شعر 5۔ باغباں تیری عنایت کا بھرم کیوں کھلتا ایک بھی پھول جو گلشن میں ہمارا ہوتا
مفہوم۔ اے باغباں! اگر تو واقعی مہربان ہوتا تو تیرے اس گلش میں میرے لیے کم از کم ایک پھول ضرور ہوتا۔لیکن وہ نہیں تھا اس لیے ہمارا بھرم کھل گی اور ہمیں تیری عنایت کا پتا چل گیا۔
تشریح۔ غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کے اس شعر میں شاعرہ پروین فنا سید اپنی زندگی میں نا میسر اشیا کا تذکرہ کر رہی ہیں۔ یہ کیفیت بھی انسان کو اکثر تنگ کرتی ہے اور اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ میرے پاس کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ شاعرہ پروین فنا سید کا یہ شعر “اے باغباں! اگر تو واقعی مہربان ہوتا تو تیرے اس گلش میں میرے لیے کم از کم ایک پھول ضرور ہوتا۔ لیکن وہ نہیں تھا اس لیے ہمارا بھرم کھل گی اور ہمیں تیری عنایت کا پتا چل گیا” ایک گہری شکایت اور دل کی تنگی کو بیان کرتا ہے، جہاں شاعرہ اپنی تقدیر اور خدا کی عنایت کا تذکرہ کر رہی ہیں۔
اس شعر میں “باغباں” سے مراد خدا یا قدرت ہے اور “گلشن” دنیا یا زندگی کی علامت ہے۔ شاعرہ اس بات پر سوال اٹھا رہی ہیں کہ اگر خدا واقعی مہربان اور عنایت کرنے والا ہے، تو ان کی زندگی میں کم از کم ایک پھول (خوشی، کامیابی یا سکون) تو ہونا چاہیے تھا۔ “ایک پھول” سے مراد وہ خوشی یا کامیابی ہے جو انسان کی زندگی میں ہونی چاہیے۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ اگر وہ کچھ ملتا تو ان کا ایمان اور بھرم برقرار رہتا، لیکن جب ان کی زندگی میں کچھ بھی حاصل نہ ہوا، تو ان کو خدا کی حقیقی مہربانی کا پتا چلا اور وہ سمجھ گئیں کہ خدا کی عنایت اور کرم ان کی تقدیر کا حصہ نہیں ہے۔
یہ شعر انسان کی زندگی میں عدم موجودگی یا کمیابی کی کیفیت کو اجاگر کرتا ہے، جہاں انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، اور وہ خدا کی عنایت کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے۔ اس میں ایک دکھ اور کرب کا اظہار ہے کہ زندگی میں جو کچھ ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔( پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح)
شعر 6۔ تم پر اسرار فنا راز بقا کھل جاتے تم نے ایک بار تو یزداں کو پکارا ہوتا
مفہوم۔ اگر ایک مرتبہ تم نے خدا کو پکارا ہوتا، تو تم پر تمام راز فنا اور بقا کے کھل کر عیاں ہو جاتے۔
تشریح۔ غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کے اس شعر میں شاعرہ پروین فنا سید زندگی اور دنیا میں فنا اور بقا کے اسرار و رموز کا ذکر کر رہی ہیں۔ یہ شعر دراصل ایک روحانی پیغام دیتا ہے۔ شاعرہ پروین فنا سید کا یہ شعر “اگر ایک مرتبہ تم نے خدا کو پکارا ہوتا، تو تم پر تمام راز فنا اور بقا کے کھل کر عیاں ہو جاتے” ایک گہرا روحانی پیغام دیتا ہے۔ یہاں “خدا کو پکارنا” دراصل روحانی بیداری اور خدا سے تعلق قائم کرنے کی علامت ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ اگر انسان اپنے دل سے سچے دل سے خدا کو پکارے، تو اس کے دل میں وہ سچائیاں اور راز کھل جاتے ہیں جو دنیا کی فانی حقیقت اور روحانی بقا سے جڑے ہوئے ہیں۔ “راز فنا اور بقا کے” سے مراد وہ عمیق حقیقتیں ہیں جو دنیا کی عارضیت (فنا) اور روح کی ازلی زندگی (بقا) کے بارے میں ہیں۔ جب انسان خدا سے رشتہ استوار کرتا ہے، تو وہ دنیا کی عارضیت کو سمجھنے لگتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی حقیقی بقا خدا کے ساتھ ہے، نہ کہ اس دنیا کی فانی حقیقتوں میں۔شاعرہ یہ بھی بیان کر رہی ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر روحانی تعلق قائم کرے اور خدا کی ہدایت کو اپنا لے، تو اسے زندگی کے اہم راز اور اس کی حقیقتوں کا علم ہو جاتا ہے۔ اس شعر میں ایک دعوت ہے کہ انسان اپنی روحانیت کی طرف متوجہ ہو، تاکہ وہ فنا اور بقا کے راز کو سمجھ سکے، اور اپنی زندگی کو ایک بلند مقصد کے لیے وقف کر سکے۔ اس میں ایک گہری حقیقت کا بیان ہے کہ خدا کی پکار میں ہی انسان کی زندگی کے حقیقی معنی اور مقصد چھپے ہوئے ہیں۔( پروین فنا سید کی غزل کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا کی تشریح)
We offer you our services to Teach and Learn Languages, Literatures and Translate. (Urdu, English, Bahasa Indonesia, Hangul, Punjabi, Pashto, Persian, Arabic)
اس آرٹیکل کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کریں
اگر آپ کو اس آرٹیکل میں کوئی غلطی نظر آ رہی ہے۔ تو درست اور قابلِ اعتبار معلومات کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ ہم درست معلومات کی ترسیل کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ۔ Ilmu علموبابا اگر آپ بھی ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہماری اس کمیونٹی میں شامل ہو کر معلومات کے سلسلے کو بڑھانے میں ہماری مدد کریں۔ ہمارے فیس بک ، وٹس ایپ ، ٹویٹر، اور ویب پیج کو فالو کریں، اور نئی آنے والی تحریروں اور لکھاریوں کی کاوشوں سے متعلق آگاہ رہیں۔