آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” ہم دیکھیں گے” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔
مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔
مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔
نظم کا مرکزی خیال:
فیض احمد فیض کی نظم “ہم دیکھیں گے” ظلم، جبر، اور استبداد کے خلاف ایک انقلابی نظم ہے جو امید، مزاحمت اور انصاف کی فتح کا پیغام دیتی ہے۔ اس نظم میں شاعر یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ ظلم اور ناانصافی کا نظام ختم ہو جائے گا اور محکوم و مظلوم عوام کو ان کا حق ملے گا۔
یہ نظم اس یقین کو تقویت
تقویت
تقویت : طاقت
” href=”https://shamivoice.pk/glossary/%d8%aa%d9%82%d9%88%db%8c%d8%aa/”>تقویت دیتی ہے کہ ظلم جتنا بھی طاقتور ہو، ایک دن اس کا زوال یقینی ہے۔ شاعر مذہبی و انقلابی استعاروں کے ذریعے بتاتے ہیں کہ تخت و تاج گرائے جائیں گے، جابروں کا اقتدار ختم ہوگا، اور صرف اللہ کا نام باقی رہے گا، جو ہر چیز کو دیکھنے والا اور ہر جگہ موجود ہے۔ آخر میں، “انا الحق” (میں حق ہوں) کے نعرے کے ذریعے شاعر مظلوم عوام کے شعور کی بیداری اور ان کے حقِ حکمرانی کو بیان کرتے ہیں کہ اصل راج عوام کا ہوگا، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
یہ نظم عدل، مساوات، آزادی اور ایک بہتر سماج کے قیام کی امید پر مبنی ہے، جہاں استحصال اور جبر کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” ہم دیکھیں گے” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Post Views: 6